چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قومی اجلاس میں کیا اہم فیصلے ہوں گے؟

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سیکیورٹی انتظامات کئی گنا بڑھا دیے گئے ہیں۔ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے نافذ کردہ پابندیاں بھی سخت کردی گئی ہیں جب کہ شہر کو کمیونسٹ پارٹی کے سُرخ پرچموں اور سیاسی بینرز سے سجا دیا گیا ہے۔

یہ سب اہتمام ہر پانچ سال بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی کی نیشنل کانگریس یعنی میٹنگ کے سلسلے میں کیا جاتا ہے جو اس برس 16 اکتوبر کو منعقد ہورہی ہے اور مبصرین کے مطابق اس کانگریس میں ہونے والے فیصلوں سے موجودہ صدر شی جن پنگ کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط ہوگی۔

صدر شی کو پہلے ہی کمیونسٹ چین کے بانی ماؤزے تنگ کے بعد ملکی تاریخ کا سب سے طاقت ور حکمران سمجھا جاتا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں تبدیلی سے متعلق اہم فیصلوں کی وجہ سے ہر پانج برس کے بعد ہو نے والے اس اجلاس کو دنیا بھر میں بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ 1921 میں پارٹی کے قیام کے بعد سے ہر پانچ برس بعد اس کانفرنس کا انعقاد کا تسلسل جاری ہے اور اس برس اس کا بیسواں اجلاس ہونے جارہا ہے۔

اس اجلاس میں ملک بھر سے پارٹی سے وفا داری اور اچھے طرز عمل کی بنیاد پر منتخب کیے گئے 3000 مندوبین تیانانمن اسکوائر پر واقع گریٹ ہال آف پیپل میں جمع ہوں گے ۔جہاں کئی روز تک جاری رہنے والے اجلاس میں بند دروازوں کے پیچھے اہم ترین فیصلے کیے جائیں گے۔

کیا فیصلے متوقع ہیں؟

ہر پانچ سال بعد ہونے والے نیشنل پارٹی کے اجلاس میں چین کی مستقبل کی پالیسیوں سے متعلق بنیادی خطوط متعین کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے متعلق اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔

اس برس کانگریس میں شریک ہونے والے مندوبین کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے ارکان اور ان کے متبادل کا انتخاب کریں گے جن کی تعداد 370 ہوگی۔

اسی سینٹرل کمیٹی میں سے وزرا، مختلف اہم سرکاری محکموں اور اداروں کے سربراہان، پارٹی کے صوبائی قائدین اور فوجی حکام کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک "سینٹر فار فارن ریلیشنز " کے مطابق یہ سینٹرل کمیٹی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی طرح کام کرتی ہے۔ اس کا سالانہ اجلاس منعقد کیا جاتا ہے جسے' پلینم' کہا جاتا ہے۔

نیشنل کانگریس کے دوران ہی سینٹرل کمیٹی اپنے پہلے اجلاس میں پارٹی کے پولیٹیکل بیورو کے 25 ارکان کا انتخاب کرے گی۔ پولیٹیکل بیور کو عرفِ عام میں پولٹ بیورو کہا جاتا ہے۔

سینٹرل کمیٹی سے منتخب ہونے والے پولیٹیکل بیورو کے ارکان ایک قائمہ کمیٹی (اسٹینڈنگ کمیٹی) کا انتخاب کریں گے جس میں پانچ سے نو افراد ہوتے ہیں۔ اس کمیٹی کو چین میں اقتدار اور اختیارات کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے پاس ہوتی ہے جس کا انتخاب بھی سینٹرل کمیٹی کرتی ہے۔

چین میں کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکریٹری سب سے طاقت ور اور بااختیار عہدہ ہے۔ 1993 کے بعد سے پارٹی کا جنرل سیکریٹری ہی سربراہِ مملکت ہوتا ہے جسے صدر کہا جاتا ہے۔

چین میں چوں کہ فوج تیکنیکی طور پر کمیونسٹ پارٹی کا مسلح ونگ تصور ہوتی ہے اس لیے اسے پیپلز آرمی کہا جاتا ہے اور اس کی سربراہی بھی پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے پاس ہوتی ہے۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق اگرچہ پولٹ بیورو کے ارکان کی ریٹائرمنٹ کی کوئی باضابطہ عمر مقرر نہیں لیکن غیر رسمی طور پر 68 برس کی عمر متعین ہے۔لیکن 2012 میں جنرل سیکریٹری منتخب ہونے والے شی جن پنگ 69 برس کے ہوچکے ہیں اور متوقع طور پر انہیں تیسری مرتبہ پارٹی کی سربراہی اور ملک کی صدارت کے لیے منتخب کرلیا جائے گا۔

اس کے علاوہ پولٹ بیورو کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے تین دیگر ارکان بھی ایسے ہیں جو عمر کی یہ حد پوری کرچکے ہیں تاہم وہ متوقع طور پر اس برس اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوجائیں گے۔

چین میں وزیرِ اعظم ایک انتظامی عہدے اور وہ ملک کی اسٹیٹ کونسل کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم کا انتخاب بھی پولٹ بیورو کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں شامل ارکان ہی میں سے کیا جاتا ہے جو ہر پانج سال بعد کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نیشنل کانگریس ہی کے موقعے پر کرتی ہے۔

SEE ALSO: تائیوان کے معاملے پر چین اتنا حساس کیوں ہے؟

چین کی کمیونسٹ پارٹی میں آتی بتدریج تبدیلیاں

روس میں آنے والے انقلاب کے بعد اس سے متاثر ہوکر مارکس اور لینن کی فکر کی بنیاد پر چین میں 1921 میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ چین میں اس وقت قوم پرست جماعت کومنتانگ کمیونسٹ پارٹی کی سب سے بڑی حریف تھی اور ان دونوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی کو 1949 میں اس طویل جنگ میں کامیابی حاصل ہوئی اور ماؤ زے تنگ نے جدید چین کی بنیاد رکھی۔

لیننسٹ نظام میں کمیونسٹ پارٹی ہی حکمران جماعت ہوتی ہے اور پارٹی کے عہدے داران کاروبارِ ریاست چلاتے ہیں۔ یعنی ملک کی معیشت، خارجہ پالیسی، دفاع اور فوج بھی پارٹی کے ماتحت ہوتے ہیں۔روس میں بالشویک انقلاب کے بعد 1922 میں سوویت یونین کے قائم ہوئی تو یہ نظامِ حکومت رائج ہوا تھا جسے بعد ازاں 1949 میں چین نے بھی اختیار کرلیا۔

اگرچہ 1970 کی دہائی میں چین میں معاشی اصلاحات کی گئیں اور معیشت پر ریاستی کنٹرول میں نرمی کی گئی لیکن سیاسی نظام میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں چین کے مختلف حلقوں اور بالخصوص چینی طلبہ نے انفرادی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی جس کے خلاف ریاستی طاقت بھی استعمال کی گئی۔

سن 1989 میں تیانانمن اسکوائر کا واقعہ پیش آیا جس میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ اور شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اس کریک ڈاؤن میں طلبہ سمیت 200 سے زائد سویلین اور درجنوں سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔

تیانانمن اسکوائر کا واقعہ چین میں طرزِ حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکہ تھا جس کے بعد 1991 میں سوویت یونین کے انہدام نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو اپنے نطام پر نظرِ ثانی کے لیے مجبور کردیا۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی نے سوویت نظام کے خاتمے کے اسباب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے نظام میں کئی تبدیلیاں کی تاہم اسے شخصی آمریت نہیں بننے دیا۔

صدر شی جن پنگ کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہونے کے بعد اس کے شخصی آمریت میں تبدیل ہونے کے تاثر نے جڑیں پکڑنا شروع کردی ہیں۔

ماؤ سے شی جن پنگ

کمیونسٹ چین کے بانی ماؤ زے تنگ کی زندگی میں صدارت اور پارٹی کی جنرل سیکریٹری کے عہدے کے لیے ایک ہی شخص کئی بار منتخب کیا جاسکتا تھا۔تاہم 1982 سے 2018 تک صدر کے لیے زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہونے کی حد مقرر کردی گئی تھی جسے 2018 میں شی جن پنگ نے ختم کردیا۔

مبصرین کے مطابق شی جن پنگ نے سیاسی مقاصد کے ساتھ شروع کی گئی اینٹی کرپشن مہم کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹا کر پارٹی میں اپنی گرفت مضبوط کی اور جس کے بعد انہوں نے انتخاب کی مدت سے متعلق اہم تبدیلیاں بھی کیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق شی جن پنگ نے اپنی اس مہم کے دوران کم و بیش 47 لاکھ مختلف حکام اور عہدے داران کے خلاف تحقیقات کرائیں اور ان تحقیقات کے نتیجے میں خالی ہونے والے عہدوں پر اپنے سیاسی اتحادیوں کو تعینات کیا۔

اسی طرح 2015 میں فوج کے قواعد میں تبدیلیاں لا کر اس پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ اسی برس شی نے پارلیمنٹ، کابینہ اور سپریم کورٹ کو سالانہ بنیادوں پر کارکردگی رپورٹ صدر کو پیش کرنے کا پابند بنایا۔

شی جن پنگ کے دور میں میڈیا کی آزادی کو مزید محدود کیا گیا۔ اسی طرح 2017 میں چینی خواص کے حامل سوشلزم پر شی جن پنگ کے افکار کو آئین میں ان کے نام کے ساتھ شامل کیا گیا۔

اس سے قبل صرف پارٹی کے بانی ماؤ زے تنگ کے نظریات کو ہی ان کے نام سے شامل کیا گیا تھا جب کہ بعد میں آنے والے صدور اور جنرل سیکریٹری کے فکری نکات بغیر کسی نام کے آئین کا حصہ بنتے رہے تھے۔

یہ اور ان جیسے دیگر اقدامات کی بنا پر صدر شی جن پنگ کی گرفت اقتدار پر مضبوط ہوتی چلی گئی اور 2018 میں صدارت کے لیے دو بار انتخاب کی شرط ختم کرنے کے بعد سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ آئندہ مدت کے لیے بھی اس منصب پر فائز رہنے کی تیاری کررہے ہیں۔

اسی لیے رواں برس ہونے والے نیشنل کانگریس کے اس اہم اجلاس کے نتیجے میں ان کے اس منصب پر تیسری بار انتخاب کی راہ ہموار دکھائی دیتی ہے۔

تیسری بار منتخب ہونے کے بعد شی جن پنگ اپنی پالیسیاں جاری رکھ پائیں گے جس میں مغرپ پر چین کا انحصار کم کرنے سمیت دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے جیسے اہداف شامل ہیں۔

اس کے علاوہ تائیوان کے تنازع پر شی جی پنگ جارحانہ مؤقف رکھتے ہیں اور کئی بار اس خود مختار خطے کو چین میں شامل کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔

اجتماعی قیادت سے شخصی حکومت تک

بین الاقوامی تعلقات اور معیشت پر تحقیق کرنے والے ادارے یو ایس سین ڈیاگو اسکول آف گلوبل پالیسی اینڈ اسٹریٹجی کے مطابق شی جن پنگ کی بڑھتی ہوئی قوت نے بین الاقوامی سطح پر چین کے کردار کو تبدیل کیا ہے۔

اس ادارے کی چین کی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں نیشنل کانگریس کے موقعے پر جاری کردہ رپورٹ کے مطابق شی کے انتخاب سے قبل 2000 کی دہائی میں چین کی معاشی ترقی کو ’پرُامن عروج‘ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم شی نے چین کے لیے ترقی یافتہ اور دولت مند ملک ہونے کے ساتھ اسے طاقت ور بنانے کا وژن بھی دیا۔ شی کی جارح اندازِ فکر کی جھلک ہانگ کانگ اور تائیوان سے متعلق شی کے اختیار کی پالیسی میں بھی نظر آتی ہے۔

چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کا ہر پانچ برس بعد ہونے والا غیر معمولی اجلاس 16 اکتوبر کو منعقد ہوگا جس میں جماعت کی قیادت میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔

چین کے نظام پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق چین کا نظام اجتماعی قیادت کے جس اصول پر مبنی تھا تاہم ماؤزے تنگ کو پارٹی کے بانی اور فکری رہنما ہونے کی وجہ سے مرکزیت حاصل تھی۔

اجتماعی قیادت کے اصول کی وجہ سے ماؤزے تنگ کے بعد پارٹی کسی شخصیت یا فرد سے زیادہ مضبوط رہی اور چین میں کسی شخص کے بجائے پارٹی کی آمریت رہی۔ تاہم مبصرین کے مطابق شی کے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ چین ایک شخصی آمریت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ چین میں معاشی سست روی اور اس سے بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی، طبقاتی فرق اور شخصی آزادیوں بڑھتی قدغنوں کے علاوہ کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے عائد کی گئی سخت پابندیوں کے باعث شی جن پنگ کے خلاف بے چینی بھی بڑھتی جارہی ہے۔

اس کا ایک حالیہ مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا ہے جب جمعرات کو نیشنل کانگریس کے انعقاد سے صرف چندروز قبل بیجنگ میں سخت سیکیورٹی کے باوجود بعض مقامات پر صدر شی جن پنگ سے متعلق تنقیدی بینر آویزاں کیے گئے۔ اگرچہ یہ بینر ہٹا دیے گئے لیکن ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر پھیل گئیں۔

موجودہ حالات میں عالمی ذرائع ابلاغ اس واقعے کو چین میں صدر شی کی پالیسیوں سے متعلق بڑھتی ہوئی بے چینی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔

اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔