امریکہ نے چین میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کے خلاف جاری کارروائی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، جس سے قبل بدھ ہی کو یہ اطلاعات آئی تھیں کہ انسانی حقوق کے متعدد معروف وکلا کو ریاست کے خلاف بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اِن میں سے کچھ وکلا کو چھ ماہ تک کی حراست میں رکھے جانے کے بعد فردِ جرم عائد کی گئی۔
محکمہٴ خارجہ کے معاون ترجمان، مارک ٹونر نے کہا ہے کہ ’امریکہ چین سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ الزامات فوری طور پر واپس لیے جائیں اور وکلا اور اُن جیسے دیگر افراد کو رہا کیا جائے، جن کا گناہ چین کے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے‘۔
یہ اُن 130 سے زائد وکلا میں شامل ہیں جنھیں جولائی میں گرفتار کیا گیا تھا، جس سے قبل اُن پر کمرہٴ عدالت کے باہر احتجاجی مظاہرے منعقد کرانے کا الزام ہے، ’تاکہ مقامی حکام پر دباؤ ڈالا جا سکے‘۔
سرکاری ابلاغ کے ذرائع نے اِن اٹارنیز کو ’جرائم پیشہ ٹولہ‘ قرار دیا ہے، جو بقول اُن کے، عام لوگوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
15 سال سے عمرقید کی سزائیں
لی یوہان وکیل ہیں۔ وہ وانگ یو کی گرفتاری کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ وانگ یو کی والدہ کو اِس ہفتے باضابطہ گرفتاری کا نوٹس موصول ہوا۔ اُن پر سرکاری اختیارات کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے، جس الزام کے تحت اُنھیں ممکنہ طور پر تاحیات قید ہوسکتی ہے۔
لی نے کہا کہ وانگ کے شوہر، باؤ لونگ جُن پر بھی یہی الزام عائد ہے۔
وانگ یو اِس لیے مشہور ہیں کہ اُنھوں نے یغور عالم دین، الہام توتی کا دفاع کیا تھا؛ اور مبینہ جنسی زیادتی کے شکار افراد، زبردستی بے دخل کیے گئے لوگ اور غیر قانونی کالے قیدخانوں میں پڑے ہوئے لوگوں کی وکالت کا جرم کیا تھا۔
لی نے کہا ہے کہ جولائی مین گرفتار کی گئی وانگ سے اُن کی ملاقات نہیں ہوپائی۔ بتایا جاتا ہے کہ دیگر مدعا علیہان بھی اپنے وکلا سے ملنے میں ناکام رہے ہیں۔
شو شیفینگ بھی اُن افراد میں شامل ہیں جنھیں گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ بیجنگ کی فنگ رئی لا فرم کے بانی اور زہو وائی کے قانونی مشیر ہیں۔ ژی یائی، شی جینگ اور سئی مکنگ بھی اسی قانونی فرم میں کام کرتے ہیں، جن پر بھی ریاست سے بغاوت کا الزام عائد ہے۔
محکمہٴ خارجہ کے معاون ترجمان نے اس بات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ انسانی حقوق کے وکلا شو شیفنگ، وانگ یو اور لی ہیپنگ مؤکلوں کی مدد کرنے کی پاداش میں 15 برس سےعمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، جن میں متعدد انسانی حقوق کے معروف سرگرم کارکن ہیں۔
گذشتہ ستمبر میں، وانگ یو اُن پہلی 20 خواتین سیاسی قیدیوں میں شامل تھیں، جنھیں محکمہٴ خارجہ نے 20 سیاسی قیدیوں کی فہرست میں شامل کیا، جن کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔