چین: ہوٹلوں اور ٹھیلوں سے لفظ 'حلال' ہٹانے کا حکم

عربی رسم الخط اور اسلامی نشانات کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں 2016 کے بعد تیزی آئی ہے۔ جس کا مقصد دیگر مذاہب کو چینی ثقافت سے ہم آہنگ کرنا بتایا جاتا ہے۔

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں حکام کی طرف سے حلال کھانا بیچنے والے ہوٹلوں اور ٹھیلوں کو عربی لفظ 'حلال' اور دیگر اسلامی علامات ہٹانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

چین میں دو کروڑ مسلمان آباد ہیں اور سرکاری طور پر انہیں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ لیکن دارالحکومت بیجنگ کے حکام نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ریستوران اور پتھاروں سے اسلام کی شناخت ظاہر کرنے والے نشانات اور علامات ہٹا دی جائیں۔

عربی رسم الخط اور اسلامی نشانات کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں 2016 کے بعد تیزی آئی ہے، جس کا مقصد دیگر مذاہب کو چینی ثقافت سے ہم آہنگ کرنا بتایا جاتا ہے۔

بیجنگ کے حکام کا کہنا ہے کہ لفظ 'حلال' کو ریستورانوں سے ہٹانے کی مہم کا مقصد مسلمانوں کو قومی سطح پر کی جانے والی کوششوں کا احساس دلانا ہے۔

دارالحکومت بیجنگ میں حلال کھانا بیچنے والے گیارہ ہوٹلوں کے ملازمین نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ انہیں حکام کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مذہب اسلام سے وابستہ تصاویر اور عربی رسم الخط میں لکھے الفاظ جیسے’حلال‘ کو اپنے بورڈز سے خارج کر دیں۔

بیجنگ میں سوّیاں بیچنے والی دکان کے منیجر نے بتایا کہ انہیں حکام کی طرف سے عربی لفظ 'حلال' ڈھانپنے کے لیے کہا گیا اور پھر حکام نے یقینی بنایا کہ وہ ایسا اُن کے سامنے کریں۔

حکومت کی مہم صرف مسلم اقلیت کے خلاف نہیں ہے

نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے منیجر کا کہنا ہے کہ حکام نے اسے بتایا کہ یہ غیر ملکی ثقافت ہے اور انہیں چین کی ثقافت اپنانی چاہیے۔

حکام کی جانب سے یہ مہم صرف مسلم اقلیت کے خلاف نہیں ہے۔ عیسائیوں کے خفیہ گرجا گھروں کو بھی بند کر دیا گیا ہے اور گرجا گھروں پر لگی صلیبوں کو بھی غیر قانونی قرار دے کر توڑ دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ چین میں آباد مسلمان اُس وقت توجہ کا مرکز بنے جب 2009 میں مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں ویغور مسلمانوں اور ہن چائنیز کے درمیان فسادات کے واقعات سامنے آئے جس کے دوران سرکاری عمارتوں پر حملے کیے گے اور عوامی مقامات، پولیس اور حکام کو پٹرول بموں سے نشانہ بنایا گیا۔

ان فسادات کے ردّ عمل میں چین نے سنکیانگ میں 'دہشت گردوں کے خلاف آپریشن' کے نام پر کارروائی شروع کی۔

مغربی ممالک کی طرف سے چین کی اس مہم کے خلاف رد عمل سامنے آ رہا ہے اور خاص طور پر مسلم ویغوروں کی قید اور نگرانی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے جب کہ چین کی حکومت کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔

اکثر دکانداروں نے حلال لفظ کو چینی زبان کے متبادل لفظ ’کنگ زین‘ سے تبدیل کر دیا

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی فکر مند ہے کہ غیر ملکیوں کے اثرات سے مذہبی گروہوں کو قابو کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

ماہر بشریات ڈیرن بائلر کا کہنا ہے کہ عربی کو ایک غیر ملکی زبان کے طور پر لیا جاتا ہے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ یہ ریاست کے کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔

رائٹرز کے مطابق، اکثر دکانداروں نے 'حلال' لفظ کو چینی زبان کے متبادل لفظ ’کنگ زین‘ سے تبدیل کر دیا ہے، جب کہ کچھ دکانداروں نے ٹیپ لگا کر اُسے چھپا دیا ہے۔

فوڈ ڈلیوری ایپ کے مطابق، بیجنگ میں حلال کھانے بیچنے والے لگ بھگ ایک ہزار ہوٹلز اور دکانیں ہیں۔

دوسری جانب بیجنگ کی کمیٹی برائے مذہبی امور نے اس بارے میں مؤقف دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قومی معاملہ ہے۔

قومی کمیٹی برائے مذہبی امور کے اہل کار نے رائٹرز کو بتایا کہ چین کا آئین اقلیتوں کے جائز حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ تاہم، انہوں نے بیجنگ کی کمیٹی برائے مذہبی امور کی طرف سے جاری کردہ احکامات کی تفصیلات نہیں بتائیں۔

رائٹرز کو انٹرویو دینے والوں کی اکثریت نے بتایا کہ انہیں اپنے بورڈز تبدیل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں، جب کہ کچھ دکانداروں نے حکام پر مسلمانوں کی ثقافت کو ختم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کے گاہک الجھن کا شکار ہوں گے۔