چین ایران کے تیل اور گیس کے ذخائر پر قبضے کا خواہش مند؟

ایران کے صدر حسن روحانی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ۔ (فائل فوٹو)

توانائی سے متعلق معروف آن لائن جریدے ’’پیٹرولیم اکانومسٹ‘‘ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران ایران کے تیل، گیس، بجلی اور انفراسٹرکچر شعبوں میں 400 ارب ڈالر کی مجوزہ چینی سرمایہ کاری کی پیش کش کو حتمی معاہدے کی شکل دے دی ہے۔ چین نے یہ پیشکش 2016 میں کی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ چین کی یہ سرمایہ کاری چین کے بیلٹ اینڈ روڈ حکمت عملی کا ایک حصہ ہو گی اور یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے 60 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے منصوبوں سے لگ بھگ سات گنا بڑی ہوگی۔

ایران میں چین کی اس خطیر سرمایہ کاری کے دو حصے ہوں گے۔ ایک حصے میں ایران میں تیل، گیس اور پیٹرو کیمیکل سیکٹرز میں 2 کھرب 80 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جب کہ بقیہ ایک کھرب 20 ارب ڈالر سڑکوں اور ریل کے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ منصوبے 25 سال میں مکمل ہوں گے۔

ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے چین ٹیکنالوجی، افرادی قوت اور دیگر وسائل فراہم کرے گا۔ منصوبوں پر کام کے دوران چین اپنے ماہرین، افرادی قوت اور دیگر مفادات کے لئے اپنے 5,000 سیکورٹی اہل کاروں کو بھی ایران میں تعینات کرے گا۔

امریکہ کے معروف تھنک ٹینک ’’بروکنگز انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے سینئر نان ریذیڈنٹ فیلو اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ھادی امر نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ اس سرمایہ کاری سے چین کا مقصد سیاسی پہلو کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایران سمیت مشرق وسطیٰ میں اپنا معاشی اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔

چین نے پاکستان میں بھی اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ (فائل فوٹو)

انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کرتے ہوئے چین امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو مد نظر نہیں رکھے گا۔

ھادی امر کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایران میں 400 ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری سے چین کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں لیکن اسے ایران کے تیل اور گیس کے ذخائر پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ بھی چین کے تعلقات گرم جوشی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یوں رفتہ رفتہ چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ھادی امر اس تاثر کی تردید کرتے ہیں کہ چین ایران اور مشرق وسطیٰ میں کوئی کھیل کھیل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین یہ سرمایہ کاری محض اپنے قومی مفادات کے لیے کر رہا ہے۔

ھادی امر کے بقول ایران میں خطیر سرمایہ کاری کرنے سے چین۔پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم امریکہ یقینی طور پر اس چینی اقدام کے خلاف شدید رد عمل کا مظاہرہ کرے گا۔

چین ایران میں سڑکوں اور ریلوے اسٹرکچر میں بھی سرمایہ کاری کرے گا۔ (فائل فوٹو)

اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ ایران پر اقتصادی پابندیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ تاہم فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے تناظر میں امریکہ نئی ابھرتی ہوئی متبادل سپر پاور چین کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایران میں منصوبے مکمل ہونے کے بعد ایران چین کو اس بات کی ضمانت فراہم کرے گا کہ چین کو ایرانی تیل کی ترسیل کم از کم 12 فیصد رعایتی نرخوں پر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی۔ خریدے گئے تیل اور گیس کی قیمت کی ادائیگی میں بھی چین کو دو سال کی تاخیر کا حق حاصل ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ ادائیگی بھی سافٹ کرنسیوں میں کی جائے گی۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے وابستہ مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر شیرین ہنٹر کا کہنا ہے کہ اس خطیر سرمایہ کاری سے چین کو جو فوائد حاصل ہوں گے ان سے ایران مستقبل میں چین کی نوآبادی بن کر رہ جائے گا اور ایران کی اقتصادی اور سیاسی خود مختاری سکڑ کر رہ جائے گی۔

اپنے ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے کہا کہ ایران میں عوامی سطح پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر لوگ پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب خلیج فارس میں واقع ایرانی جزیرے ’کش‘ کا کنٹرول چین کے حوالے کیے جانے سے متعلق خبریں منظر عام پر آئی تھیں تو سوشل میڈیا پر ایرانیوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد ایرانی حکومت نے ایسے کسی اقدام سے انکار کیا تھا۔

شیرین ہنٹر کا مزید کہنا تھا کہ چین کی طرف سے 400 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کے تناظر میں ایران کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ بھی اقتصادی اور سیاسی تعلقات بڑھائے تاکہ ایران میں ممکنہ طور پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ میں توازن پیدا کیا جا سکے۔