مو کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے ماضی میں ان پر تنقید کی ہے انھوں نے ان کی کتابیں نہیں پڑی ہیں ۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ جب وہ کتابیں لکھی گئی تھیں تو انہوں نے بہت زیادہ خطرہ اور دباؤ مول لیا تھا۔
بیجنگ —
اس سال کا ادب کا نوبیل انعام چینی مصنف مو یان کو دیا گیا ہے ۔ ان کے مداح ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر ان کی تعریف کرتے ہیں جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ وہ حکام کو ناراض کرنے سے بچتے ہیں ۔
تا ہم مصنف نے، جن کے قلمی نام کا مطلب ہے، "خاموش رہو"، جمعے کو اپنی خاموشی توڑی اور اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے ہم وطن لیو زیاوبو کو جنھیں دو برس پہلے امن کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور جو اب بھی جیل میں ہیں، جلد ہی رہا کر دیا جائے گا ۔
مو یان کو ادب کا نوبیل انعام وصول کیے ایک دن بھی نہیں گذرا تھا کہ انھوں نے رپورٹروں سے، جو ان کے قصبے گاؤمی میں جمع ہوئے تھے، کہا کہ انہیں امید ہے کہ لیو زیاوبو کو جتنی جلدی ممکن ہوا ، آزادی مل جائے گی۔
انھوں نے کچھ ایسی باتیں کہیں جو چین پر حکمرانی کرنے والے لیڈروں کو مشکل ہی سے پسند آئیں گی ۔ مو نے کہا کہ یہ ممکن ہونا چاہیئے کہ لیو اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ انھوں نے ان لوگوں کی بھی خبر لی جو ان پر نکتہ چینی کرتے ہیں ۔
مو کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے ماضی میں ان پر تنقید کی ہے انھوں نے ان کی کتابیں نہیں پڑی ہیں ۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ جب وہ کتابیں لکھی گئی تھیں تو انہوں نے بہت زیادہ خطرہ اور دباؤ مول لیا تھا۔
مو چینی مصنفین کی انجمن کے نائب صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے رکن ہیں ۔
جب دو سال قبل لیو زیاوبو نے امن کا نوبیل انعام جیتا تھا، تو چین نے اس فیصلے پر تنقید کی تھی اور اسے انعام کی بے حرمتی قرار دیا تھا ۔
اُس وقت اِ س مصنف نے لیو کو قید کیے جانے پر تبصرہ کرنے سے پہلو تہی کی، اور اپنی آواز بلند کرنے سے انکار کرنے پر، انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔
اب تک چین میں مو یان کی کامیابی کی خبر پر مسرت کا اظہار کیا گیا ہے اور لیو زیاوبو کو امن کا نوبیل انعام ملنے کی خبر کے برعکس، چین کے اخباروں نے مو یان کی خبر کو پہلے صفحے پر نمایاں انداز سے شائع کیا اور اس فیصلے کو تاریخی فتح قرار دیا۔
جب چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی سے اس فرق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ مو کی اتنی زیادہ تعریف و توصیف کی وجہ یہ ہے کہ چین میں ان کی شہرت بہت زیادہ ہے ۔
ہونگ لئی کہتے ہیں کہ مو یان کی ادبی کارناموں کے بارے میں سب جانتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ دو سال قبل ناروے کی نوبیل کمیٹی نے ایسا فیصلہ کیا تھا جو چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مترادف تھا اور جس سے چین کی عدلیہ کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوتی تھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ حکام کو اس فیصلے کی پر زور مخالفت کرنے کا پورا حق حاصل تھا ۔
مو کے ناقدین میں آرٹسٹ اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن آئی ویئی ویئی شامل ہیں ۔ جمعے کے روز انھوں نے نوبیل کمیٹی کے فیصلے کو شرمناک قرار دیا کیوں کہ مو یان چین کے نظام کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔ آئی کہتے ہیں کہ یہ وہی نظام ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں مسلسل زہر بھر رہا ہے ۔
ژانگ لیجیا، چینی مصنفہ ہیں جو بیجنگ میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ مو یان نے اپنے کیریئر کے دوران کچھ سمجھوتے کیے ہوں، لیکن وہ ان کے ناقدین سے متفق نہیں ۔
’’میں اس قسم کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتی اور ذاتی طور پر ادب کو حد سے زیادہ سیاسی رنگ دینے کی مخالف ہوں ۔ میرے خیال میں ادب کو ادب ہی سمجھا جانا چاہیئے ۔ بہت برسوں سے چین میں ادب کو بہت زیادہ سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے، یہ پراپیگنڈے کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ ادب کو صرف ادب ہی رہنا چاہیئے، اور انہیں یہ انعام ان کے ادبی محاسن کی بنیاد پر دیا جانا چاہیئے ۔‘‘
ژانگ اس امید کا اظہار کرتی ہیں کہ مو یان کو ملنے والے اس مشہورِ زمانہ ایوارڈ سے چین کے ادبی منظر میں کچھ توانائی آئے گی جو ملک کے اقتصادی کارناموں کے مقابلے میں پیچھے رہ گیا ہے ۔
ہارورڈ گولڈبلاٹ نے مویان کی اہم تصنیفات کو انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اور اس طرح مصنف کو بیرونِ ملک وسیع تر قارئین سے رو شناس کر ا یا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مو یان شمالی شانڈونگ کے گاؤمی قصبے میں پلے بڑھے۔ انہیں اپنی ابتدائی زندگی کے تجربات سے کہانیاں سنانے کے فن کو جِلا ملی ۔
گولڈبلاٹ کہتے ہیں کہ اگرچہ مو یان نے دس برس کی عمر میں ہی اسکول چھوڑ دیا تھا، اور وہ بڑی غربت کے ماحول میں پلے بڑھے، لیکن انھوں نے اپنے دادا اور اپنے قریبی عزیزوں سے جو کہانیاں سنی تھیں، وہ ان کی بنیادی تعلیم اور تخلیقی اپج کا ذریعہ بن گئیں۔
گولڈ بلاٹ کہتے ہیں’’انھوں نے یہ حیرت ناک کہانیاں برسوں تک اپنے حافظے میں محفوظ رکھیں ۔ عجیب و غریب واقعات کی کہانیاں، مضحکہ خیز کہانیاں، لڑکوں اور لڑکیوں کی کہانیاں، عشق و محبت کی داستانیں۔ یہی سب داستانیں ان کے ادب کی بنیاد ہیں، یہ داستانیں اور وہ جگہ جہاں وہ پلے بڑھے، گونگ می‘‘
گولڈبلاٹ کہتے ہیں کہ امریکی مصنف ولیم فاکنر کی طرح مو یان کے تقریباً تمام ناولوں کا ماحول بھی وہی قصبہ ہے جہاں وہ بڑے ہوئے۔
تا ہم مصنف نے، جن کے قلمی نام کا مطلب ہے، "خاموش رہو"، جمعے کو اپنی خاموشی توڑی اور اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے ہم وطن لیو زیاوبو کو جنھیں دو برس پہلے امن کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور جو اب بھی جیل میں ہیں، جلد ہی رہا کر دیا جائے گا ۔
مو یان کو ادب کا نوبیل انعام وصول کیے ایک دن بھی نہیں گذرا تھا کہ انھوں نے رپورٹروں سے، جو ان کے قصبے گاؤمی میں جمع ہوئے تھے، کہا کہ انہیں امید ہے کہ لیو زیاوبو کو جتنی جلدی ممکن ہوا ، آزادی مل جائے گی۔
انھوں نے کچھ ایسی باتیں کہیں جو چین پر حکمرانی کرنے والے لیڈروں کو مشکل ہی سے پسند آئیں گی ۔ مو نے کہا کہ یہ ممکن ہونا چاہیئے کہ لیو اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ انھوں نے ان لوگوں کی بھی خبر لی جو ان پر نکتہ چینی کرتے ہیں ۔
مو کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے ماضی میں ان پر تنقید کی ہے انھوں نے ان کی کتابیں نہیں پڑی ہیں ۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ جب وہ کتابیں لکھی گئی تھیں تو انہوں نے بہت زیادہ خطرہ اور دباؤ مول لیا تھا۔
مو چینی مصنفین کی انجمن کے نائب صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے رکن ہیں ۔
جب دو سال قبل لیو زیاوبو نے امن کا نوبیل انعام جیتا تھا، تو چین نے اس فیصلے پر تنقید کی تھی اور اسے انعام کی بے حرمتی قرار دیا تھا ۔
اُس وقت اِ س مصنف نے لیو کو قید کیے جانے پر تبصرہ کرنے سے پہلو تہی کی، اور اپنی آواز بلند کرنے سے انکار کرنے پر، انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔
اب تک چین میں مو یان کی کامیابی کی خبر پر مسرت کا اظہار کیا گیا ہے اور لیو زیاوبو کو امن کا نوبیل انعام ملنے کی خبر کے برعکس، چین کے اخباروں نے مو یان کی خبر کو پہلے صفحے پر نمایاں انداز سے شائع کیا اور اس فیصلے کو تاریخی فتح قرار دیا۔
جب چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی سے اس فرق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ مو کی اتنی زیادہ تعریف و توصیف کی وجہ یہ ہے کہ چین میں ان کی شہرت بہت زیادہ ہے ۔
ہونگ لئی کہتے ہیں کہ مو یان کی ادبی کارناموں کے بارے میں سب جانتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ دو سال قبل ناروے کی نوبیل کمیٹی نے ایسا فیصلہ کیا تھا جو چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مترادف تھا اور جس سے چین کی عدلیہ کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوتی تھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ حکام کو اس فیصلے کی پر زور مخالفت کرنے کا پورا حق حاصل تھا ۔
مو کے ناقدین میں آرٹسٹ اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن آئی ویئی ویئی شامل ہیں ۔ جمعے کے روز انھوں نے نوبیل کمیٹی کے فیصلے کو شرمناک قرار دیا کیوں کہ مو یان چین کے نظام کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔ آئی کہتے ہیں کہ یہ وہی نظام ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں مسلسل زہر بھر رہا ہے ۔
ژانگ لیجیا، چینی مصنفہ ہیں جو بیجنگ میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ مو یان نے اپنے کیریئر کے دوران کچھ سمجھوتے کیے ہوں، لیکن وہ ان کے ناقدین سے متفق نہیں ۔
’’میں اس قسم کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتی اور ذاتی طور پر ادب کو حد سے زیادہ سیاسی رنگ دینے کی مخالف ہوں ۔ میرے خیال میں ادب کو ادب ہی سمجھا جانا چاہیئے ۔ بہت برسوں سے چین میں ادب کو بہت زیادہ سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے، یہ پراپیگنڈے کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ ادب کو صرف ادب ہی رہنا چاہیئے، اور انہیں یہ انعام ان کے ادبی محاسن کی بنیاد پر دیا جانا چاہیئے ۔‘‘
ژانگ اس امید کا اظہار کرتی ہیں کہ مو یان کو ملنے والے اس مشہورِ زمانہ ایوارڈ سے چین کے ادبی منظر میں کچھ توانائی آئے گی جو ملک کے اقتصادی کارناموں کے مقابلے میں پیچھے رہ گیا ہے ۔
ہارورڈ گولڈبلاٹ نے مویان کی اہم تصنیفات کو انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اور اس طرح مصنف کو بیرونِ ملک وسیع تر قارئین سے رو شناس کر ا یا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مو یان شمالی شانڈونگ کے گاؤمی قصبے میں پلے بڑھے۔ انہیں اپنی ابتدائی زندگی کے تجربات سے کہانیاں سنانے کے فن کو جِلا ملی ۔
گولڈبلاٹ کہتے ہیں کہ اگرچہ مو یان نے دس برس کی عمر میں ہی اسکول چھوڑ دیا تھا، اور وہ بڑی غربت کے ماحول میں پلے بڑھے، لیکن انھوں نے اپنے دادا اور اپنے قریبی عزیزوں سے جو کہانیاں سنی تھیں، وہ ان کی بنیادی تعلیم اور تخلیقی اپج کا ذریعہ بن گئیں۔
گولڈ بلاٹ کہتے ہیں’’انھوں نے یہ حیرت ناک کہانیاں برسوں تک اپنے حافظے میں محفوظ رکھیں ۔ عجیب و غریب واقعات کی کہانیاں، مضحکہ خیز کہانیاں، لڑکوں اور لڑکیوں کی کہانیاں، عشق و محبت کی داستانیں۔ یہی سب داستانیں ان کے ادب کی بنیاد ہیں، یہ داستانیں اور وہ جگہ جہاں وہ پلے بڑھے، گونگ می‘‘
گولڈبلاٹ کہتے ہیں کہ امریکی مصنف ولیم فاکنر کی طرح مو یان کے تقریباً تمام ناولوں کا ماحول بھی وہی قصبہ ہے جہاں وہ بڑے ہوئے۔