اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ حکام ایک نیوز ڈائریکٹر کی گرفتاری کے لیے بھی سرگرم ہیں اور وہ صحافی چھپتا پھر رہا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ ’’یہ شاید چھوٹی بات ہو مگر ہم اسے برداشت کرنے کی ہمت رہتے ہیں۔‘‘
چین کے ایک اخبار نے اپنے ایک صحافی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جس کی گرفتاری ایک سرکاری کمپنی میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کا راز افشا کرنے کے بعد عمل میں آئی۔
اخبار ’دی نیو ایکسپریس‘ نے یہ مطالبہ بدھ کو ’’برائے مہربانی ہمارا آدمی رہا کریں‘‘ کی شہ سرخی کے ساتھ صحفہ اول پر ایک اداریہ میں شائع کیا۔
گرفتار ہونے والے صحافی چن یونگزہو کو گزشتہ جمعہ کو ’’ایک ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ صحافی نے زوملیون نامی تعمیراتی سازوسامان کی کمپنی کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کمپنی نے مصنوعی طور پر اپنے منافع کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
زوملیون ہانگ کانگ اور چین کے بازار حصص میں رجسٹرڈ ہے اور گزشتہ سال اس نے اپنی آمدنی 7 ارب 60 کروڑ ڈالر بتائی تھی۔ صوبہ ہونان کی حکومت بھی اس کمپنی میں حصہ دار ہے۔
دی نیو ایکسپریس کا کہنا ہے کہ ان کے صحافی کے خلاف کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے۔ اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ صحافیوں کو ان کی ان تحریروں کی سزاء نا دی جائے جو بااختیار عہدیداروں یا کمپنیوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنیں۔
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ حکام ایک نیوز ڈائریکٹر کی گرفتاری کے لیے بھی سرگرم ہیں اور وہ صحافی چھپتا پھر رہا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ ’’یہ شاید چھوٹی بات ہو مگر ہم اسے برداشت کرنے کی ہمت رہتے ہیں۔‘‘
دی نیو ایکسپریس ماضی میں بھی متنازع امور پر تحریریں شائع کرتا آیا ہے اور گزشتہ برس سابق اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد اس کے ایک اور رپورٹر کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
صدر ژی جنپنگ حکمران کمیونسٹ پارٹی میں بڑے پیمانے پر موجود بدعنوانی کے خاتمے کا عہد کر چکے ہیں تاہم وہ خود اس مہم کی سربراہی کررہے ہیں جس میں سرکاری حکام کی بدعنوانی کو افشا کرنے والوں کو گرفتار یا ان کے خلاف مقدمات چلائے جاتے ہیں یا انہیں غائب کر دیا جاتا ہے۔
پارٹی حال ہی میں ایک قانون بھی منظور کر چکی ہے جس کے تحت انٹر نیٹ پر متعدد بار ’’توہین آمیز‘‘ پیغام نشر کرنے پر کسی شخص کو تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اخبار ’دی نیو ایکسپریس‘ نے یہ مطالبہ بدھ کو ’’برائے مہربانی ہمارا آدمی رہا کریں‘‘ کی شہ سرخی کے ساتھ صحفہ اول پر ایک اداریہ میں شائع کیا۔
گرفتار ہونے والے صحافی چن یونگزہو کو گزشتہ جمعہ کو ’’ایک ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ صحافی نے زوملیون نامی تعمیراتی سازوسامان کی کمپنی کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کمپنی نے مصنوعی طور پر اپنے منافع کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
زوملیون ہانگ کانگ اور چین کے بازار حصص میں رجسٹرڈ ہے اور گزشتہ سال اس نے اپنی آمدنی 7 ارب 60 کروڑ ڈالر بتائی تھی۔ صوبہ ہونان کی حکومت بھی اس کمپنی میں حصہ دار ہے۔
دی نیو ایکسپریس کا کہنا ہے کہ ان کے صحافی کے خلاف کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے۔ اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ صحافیوں کو ان کی ان تحریروں کی سزاء نا دی جائے جو بااختیار عہدیداروں یا کمپنیوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنیں۔
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ حکام ایک نیوز ڈائریکٹر کی گرفتاری کے لیے بھی سرگرم ہیں اور وہ صحافی چھپتا پھر رہا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ ’’یہ شاید چھوٹی بات ہو مگر ہم اسے برداشت کرنے کی ہمت رہتے ہیں۔‘‘
دی نیو ایکسپریس ماضی میں بھی متنازع امور پر تحریریں شائع کرتا آیا ہے اور گزشتہ برس سابق اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد اس کے ایک اور رپورٹر کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
صدر ژی جنپنگ حکمران کمیونسٹ پارٹی میں بڑے پیمانے پر موجود بدعنوانی کے خاتمے کا عہد کر چکے ہیں تاہم وہ خود اس مہم کی سربراہی کررہے ہیں جس میں سرکاری حکام کی بدعنوانی کو افشا کرنے والوں کو گرفتار یا ان کے خلاف مقدمات چلائے جاتے ہیں یا انہیں غائب کر دیا جاتا ہے۔
پارٹی حال ہی میں ایک قانون بھی منظور کر چکی ہے جس کے تحت انٹر نیٹ پر متعدد بار ’’توہین آمیز‘‘ پیغام نشر کرنے پر کسی شخص کو تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔