جمہوریت کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت میں چین کا امکانی کردار ہے، ہندوستان ٹائمز

جمہوریت پر امریکی قیادت میں سربراہی کانفرنس، فائل فوٹو

ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی قیادت میں جمہوریت پر ہونے والی سربراہ کانفرنس میں شرکت سے پاکستان کی معذرت کے پیچھے چین کا کردار ہو سکتا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے ممکن ہے کہ رات کو دیر گئے ایک اعلیٰ چینی سفارت کار کی ٹیلی فون کال نے امریکی صدر جو بائیڈن کی میزبانی میں جمہوریت پر ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت سے پاکستان کے انکار میں کردار ادا کیا ہو۔

پاکستان نے بدھ کے روز کوئی وجہ بتائے بغیر خود کو جمہوریت پر سربراہی کانفرنس سے الگ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، جس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی آیا چین نے، جسے اسلام آباد اپنا "آہنی بھائی" قرار دیتا ہے، پاکستان کو کانفرنس میں نہ جانے پر آمادہ کیا، کیونکہ اس کانفرنس میں بیجنگ کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

بائیڈن انتظامیہ نے دنیا بھر سے ایک سو سے زیادہ ملکوں کے رہنماؤں کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی جس میں جنوبی ایشیا کے چار ملک بھارت، پاکستان، مالدیپ اور نیپال بھی شامل تھے۔

چین کی جانب سے پاکستان کو کانفرنس میں جانے سے روکنے کے شبہے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ چین کے سٹیٹ قونصلر اور وزیر خارجہ وانگ یی نے جمعے کی رات کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔

چین کی سرکاری نیوز ایجنسی، 'شنہوا' کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ایک ٹیلی فونک بات چیت کے دوران وانگ نے انہیں امریکہ کی میزبانی میں منعقد ہونے والی جمہوریت پر سربراہ کانفرنس سے متعلق چین کے نکتہ نظر سے آگاہ کیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں منعقد 'جمہوریت کانفرنس' کا مقصد کیا ہے؟

چین کے وزیر خارجہ وانگ نے اس جانب اشارہ کیا کہ "امریکہ کا مقصد جمہوریت نہیں بلکہ اپنی بالا دستی قائم کرنا ہے"۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ "امریکہ جمہوریت کے نام پر اپنی بالاتر حیثیت کا تحفظ کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

وانگ نے کہا کہ "امریکہ جمہوریت کے سائے تلے دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور دنیا میں تقسیم پیدا کر رہا ہے"۔

رپورٹ کے مطابق، وانگ کا شاہ محمود قریشی سے کہنا تھا کہ بہت سے ملک اس پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ دوسروں کے لیے معیارات اور ٹیسٹ طے کرے اور نہ ہی اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے جمہوری طریقہ کار پر چلنے کے لیے کہے۔

چین کی نیوز ایجنسی شنہوا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وانگ یی نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں اس بات پر زور دیا کہ اگر جمہوریت پر ہی بات کرنی ہے تو یہ بات اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر باہمی احترام اور برابری کے جذبے سے کی جانی چاہیے۔

چین کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اپنی ٹوئٹ میں پاکستان کی جانب سے جمہوریت کانفرنس میں شرکت سے انکار کا خیرمقدم یہ کہتے ہوئے کیا کہ پاکستان اس کا حقیقی "آہنی بھائی" ہے۔

جمہوریت کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اپنے فیصلے کے متعلق پاکستانی محکمہ خارجہ کے ایک سینئیر عہدیدار نے اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندہ ایاز گل کو بتایا ہے کہ پاکستان 'ون چائنا پالیسی' کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور تائیوان کی جمہوریت کانفرنس میں شرکت پاکستان کے دیرینہ موقف سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان کے متن کے مطابق: ’’پاکستان ایک بڑی اور فعال جمہوریت ہے جہاں عدلیہ آزاد ہے، سول سوسائٹی متحرک ہے اور میڈیا آزاد ہے۔ ہم جمہوریت کی مزید مضبوطی، بدعنوانی سے جنگ، تمام شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے پر عزم ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں ان مقاصد کے حصول کے لیے وسیع تر اصلاحات متعارف کرائی ہیں اور ان إصلاحات کے مثبت نتائچ سامنے آئے ہیں‘‘۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اس تحریری بیان میں کہا کہ ''ہم امریکہ کے ساتھ وسیع تر معاملات پر رابطے میں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اس موضوع (جمہوریت) پر بھی مستقبل میں کسی مناسب موقعہ پر مل بیٹھیں گے''۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے ڈیموکریسی کانفرنس میں شرکت سے انکار کو درست فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق ایک خودمختار ملک کو ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے دیکھے کہ کیا کام ان کے لیے بہتر ہے، ماضی میں حکمران سپرپاورز کی آنکھ کے اشارے کے منتظر ہوتے تھے اور جو وہ کہتے تھے اسی طرح ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان کے مفاد کے مطابق ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب ایک اور تجزیہ کار نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس میں شرکت کرنے کی بہت زیادہ ضرورت تھی، تاکہ امریکہ کو پیغام جاتا کہ پاکستان امریکہ سے نارمل تعلقات چاہتا ہے اور کسی قسم کی کشیدگی امریکہ کے ساتھ نہیں چاہتا۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک 'ولسن سنٹر' میں سینئر ایسوسی ایٹ اور ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ پیٹسی وداکوسوارا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اس فیصلے میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں زیادہ اچھے نہیں رہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وائٹ ہاوس نے، بشمول صدر بائیڈن، پاکستان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں اس بارے میں ناخوشی پائی جاتی ہے کہ صدر بائیڈن پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو ایک ٹیلی فون کال تک کرنے کے خواہشمند نہیں تھے۔ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے۔ دوسرا جب آپ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملک معاشی اور دیگر مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ لہٰذا، اسلام آباد کے اس فیصلے کو ایک سیاسی قدم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں یہ فیصلہ بہت مقبول ہو گا جہاں بہت زیادہ امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی حکومت کو سیاسی فوائد مل سکتے ہیں خاص طور پر جب اس کو معلوم ہو کہ اس کانفرنس میں شریک نہ ہونے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

جہاں تک یہ سوال کہ کچھ لوگوں کے بقول پاکستان کا یہ فیصلہ 'ون چائنا پالیسی' کی حمایت ہے اور تائیوان کو اس کانفرنس میں بلائے جانے کے خلاف احتجاج ہے، تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔ لیکن میرے خیال میں پاکستان کے اندرونی سیاسی عوامل چین فیکٹر سے زیادہ بڑی وجہ ہیں۔ اور میں ان قیاس آرائیوں میں زیادہ وزن نہیں دیکھتا کہ پاکستان پر چین کی طرف سے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے لیے دباو تھا۔