کچھ برہم چینی صارفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ ا مریکہ کی مالیاتی پالیسیاں چین میں افراط زر کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ اعتراضات چینی حکومت کی جانب سے خورک کی قیمتوں پر کنٹرول اور ایندھن پر مالی اعانت شروع کرنے کے بعد سامنے آرہے ہیں۔
بیجنگ کی سپرمارکیٹوں میں خریداری کے لیے آنے والے لوگ تاجروں کو فہرست میں درج اپنی اشیاء کی قیمتوں میں تبدیلی کرتے ہوئے دیکھ کر انکار میں سر ہلاتے ہیں۔
پورے چین میں افراط زر کے باعث لہسن ،برتنوں، برگر اور ایندھن سمیت سینکڑوں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے۔
پچھلے مہینے صارفین کی قیمتوں کے عشاریے میں 4.4 فی صد اضافہ ہوا جسے مسز یو جیسے صارفین نےشدت سے محسوس کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا شاپنگ بیگ بھرنے کے لیے اب ہر آنے والے دن پہلے سے زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں جس سے ان کا معیار زندگی متاثر ہورہاہے۔
چینی حکومت کی جانب سے کی جانے والی نکتہ چینی میں اپنی آواز شامل کرتے ہوئے مسز یو مہنگائی کا الزام امریکہ کی مالیاتی پالیسیوں پر لگاتی ہیں۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے چھ کھرب ڈالر امریکی معیشت میں ڈالنے کے نتیجے میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ چین جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں پیسے کا سیلاب آئے گا ۔
انشورنس کمپنی اے آئی جی سے منسلک ماہر معاشیات ٹم کانڈن کا کہنا ہے کہ اس افراط زر کے لیے امریکہ پر مسز یو اور ان کی حکومت کی الزام تراشی صرف نصف حد تک درست ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کا تعلق ان کی مارکیٹ میں فراہمی کے عمل سے ہے اور ان کی قیمتیں جلد ہی مستحکم ہوجائیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ بارشوں کی کمی یا زیادتی یاموسمی حالات کے باعث ان اشیاء کی فراہمی میں ہمیشہ مسائل دیکھنے میں آتے ہیں۔ تاہم یہ صورت حال عارضی ہوتی ہے اور مارکیٹ میں ان کی فراہمی بہتر ہونے کے بعد قیمتیں نیچے آجاتی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ چینی صارفین کو مستقلاً برگر ایک یوان مہنگا ملتا رہے گا۔ میراخیال ہے کہ ان کی قیمتیں دوبارہ معمول پر آجائیں گی۔
چین میں اس سال موسم گرما میں کئی سیلاب آئے تھے اور موسم سرما کے جلد آغاز کی وجہ سے بھی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
لیکن چینی حکومت قیمتوں میں اضافے کے سلسلے میں بدستور تشویش میں ہے ، جو ایک ایسے ملک کے لیے جہاں خاندان کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کھانے پینے پر اٹھتا ہو، سیاسی طور پر ایک حساس معاملہ ہے۔
اخراجات پر کنٹرول کے لیے چینی کابینہ نے بدھ کے روز یہ اعلان کیا کہ وہ کم آمدنی والے افراد کو مالی اعانت دینے اور ایندھن کی فراہمی بڑھانے کے ساتھ ساتھ خوراک کی اہم اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول نافذ کررہی ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ اس مداخلت سے چیزوں کی قیمتوں کو تیزی سے بڑھنے سے روکا جاسکے گا۔
حکومت اجناس، تیل، چینی اور کپاس کی مارکیٹ میں استحکام لانا چاہتی ہے۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے مزید اقدامات کرے گی اور قیمتوں میں اضافے کی غرض سے چیزوں کا غیر قانونی ذخیرہ کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے گی۔
لیکن کئی اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ اگروہ افراط زر کے خلاف جارجارنہ اقدامات کرتی ہے تو اس سے دیہی آبادی کی آمدنیوں میں اضافے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور معیشت کا رخ برآمدت پر زیادہ انحصار کی بجائے مقامی کھپت کی جانب مڑ سکتا ہے۔
خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے سے بہت سے چینیوں میں 1989ء میں تیانن من اسکوئر میں ہونے والے جمہوریت نواز طرز کے مظاہروں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جسے کچلنے کے لیے حکومت نے ٹینک اور فوجی بھیجے تھے اور وہ ایک خونی انجام پر منتج ہوا تھا۔