بھارت اور چین میں مشرقی ہمالیائی خطے میں کئی دہائیوں سے جاری سرحدی تنازعے کے سلسلے میں بالآخر معاہدہ طے پا گیا ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے آج پیر کے روز جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں بتایا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی رابطوں کے نتیجے میں طے پایا ہے۔ معاہدے میں اتفاق کیا گیا ہے کہ ڈوکلم میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت ختم کرتے ہوئے اُنہیں واپس بلانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
اُدھر چین کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ چینی فوجی علاقے کا گشت جاری رکھیں گے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہووا چُن ہنگ نے بتایا کہ چین سرحدی تاریخ کے ضابطوں کے مطابق علاقے میں اپنی حاکمیت کے تحفظ کی خاطر اقدامات جاری رکھے گا۔
یہ اعلان بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی کے اگلے ہفتے چین میں ہونے والے برکس سربراہ اجلاس میں شرکت سے چند روز قبل کیا گیا ہے۔ برکس سربراہ اجلاس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک پر دباؤ تھا کہ وہ برکس سربراہ اجلاس سے قبل سرحدی تناعے کا حل تلاش کر لیں۔
مشرقی ہمالیہ کے حساس خطے ڈوکلم میں یہ تنازعہ لگ بھگ ڈھائی ماہ تک جاری رہا جو 3,500 میل لمبے چین بھارت سرحد ی علاقے میں ہونے والے سابقہ تنازعات کے مقابلے میں سب سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔
یہ تنازعہ اُس وقت شروع ہوا جب بھارتی فوجیوں نے چین کی طرف سے ڈوکلم میں ایک سڑک تعمیر کرنے کے اقدام کو روکنے کی کوشش کی۔ یہ علاقہ چین اور بھوٹان کے درمیان متنازعہ رہا ہے۔ اُس وقت سے چین اور بھارت میں سے ہر ایک کے 300 فوجی محاذ آرائی کی کیفیت میں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے رہے جس سے تنازعے کی شدت میں مزید اضافے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس علاقے پر چینی فوجیوں کے کنٹرول سے خدشہ تھا کہ چین کو اُس حساس پٹی تک رسائی حاصل ہو جائے گی جو بھارت کو اُس کے مشرقی علاقوں سے جوڑتی ہے۔ اس وجہ سے بھارت نے چین کی طرف سے مطالبے کے باوجود یہ علاقہ خالی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
چین نے بھارت پر الزام لگایا تھا کہ وہ اُس کے علاقے میں گھس آیا ہے تاہم بھارت کا اصرار تھا کہ یہ علاقہ بھوٹان اور چین کے درمیان متنازعہ ہے اور اُس نے اپنے چھوٹے ہمسائے کی مدد کیلئے مداخلت کی ہے۔
بھارت دونوں ممالک کی طرف سے فوجیوں کو واپس بلانے پر اصرار کرتا رہا تاہم چین کا کہنا تھا کہ بھارت یہ علاقہ فوری طور پر خالی کر دے۔ اس دوران چین کے ذرائع ابلاغ نے اپنے مضامین میں بھارت کو خبردار کیا تھا کہ وہ 1962 کی لڑائی سے سبق سیکھے۔
نئی دہلی میں تجزیہ کاروں نے بھارت۔چین کے درمیان سمجھوتے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر دونوں ممالک نے اس مسئلے کے سلسلے میں ایک باعزت حل تلاش کر لیا ہے۔
بھارت کے سابق سفارتکار کے۔ سی۔ سنگھ نے ایک بھارتی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو چین کی طرف سے اس علاقے میں گشت پر کوئی اعتراز نہ ہوتا کیونکہ یہ گشت ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ مگر جب چین نے اس علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر کیلئے تعمیراتی سازوسامان وہاں پہنچا دیا تو بھارت کو تشویش ہوئی کہ اس اقدام سے علاقے کی حیثیت تبدیل ہو جائے گی۔ سرکاری اعلان میں سڑک کی تعمیر میں پیش رفت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
ایک سینئر تجزیہ کار اجے کمار نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک دہائی کا سب سے بڑا تعطل تھا۔ انھوں نے کہا کہ بھارت شروع سے ہی اس مسئلے کو سفارتی بات چیت سے حل کرنے کے حق میں رہا ہے اور مودی کے چین جانے سے قبل یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔