چین نے مسلسل دوسرے روز بھی اپنی کرنسی ’یوان‘ کی قدر میں کمی کی ہے اور اس کی طرف سے دوسری بار ایک غیر معمولی اقدام اٹھایا گیا جو عالمی مارکیٹ کے لیے بے چینی کا باعث بنا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ اقدام چین کے تجارتی حریفوں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔
بدھ کو یوان کی قدر میں 1.6 فیصد کی کمی ہوئی جبکہ ایک روز قبل اس کی قدر میں دو فیصد کمی کی گئی تھی جو گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایک دن میں اس کی قدر میں ہونے والی سب سے زیادہ کمی تھی۔
چین کا مرکزی بینک جو اپنی کرنسی کو سختی سے کنڑول کرتا ہے، کی طرف سے اس اقدام کو عارضی قرار دیا گیا جس کا مقصد یوان کی قدر کو مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کے کے تابع کرنا ہے۔
ایشیا میں سرمایہ کاروں کی طرف سے بدھ کو اس پر منفی رد عمل کا اظہار کیا گیا اور ہانگ کانگ، شنگھائی اور ٹوکیو میں حصص کی کم خرید و فروخت ہوئی جبکہ امریکہ اور یورپ میں بازار حصص کے اشاریے بھی نیچے تھے۔
امریکہ میں اس پر محتاط ردعمل دیکھنے میں آیا جس کی طرف سے ایک عرصے سے چین کی طرف سے اپنے برآمد کندگان کے غیر منصفانہ فائدے کے لیے اپنی کرنسی کی قدر کو کم رکھنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم چین اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
ایک طویل عرصے سے چین کی مالیاتی پالیسی کے نقاد امریکی سینیٹر چارلس شومر نے کہا کہ یہ اقدام اس امر کا مزید اظہار ہے کہ چین مصنوعی طریقے سے اپنی کرنسی کی قدر کو کم کر رہا ہے۔
امریکہ کی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ابھی اس اقدام کے مضمرات کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
تاہم بین الاقومی مالیاتی ادارہ 'آئی ایم ایف' اس بارے میں نہایت پر امید ہے کہ (یوان) کی قدر میں یہ کمی " بظاہر ایک خوش آئند اقدام ہے"۔