گذشتہ چند برسوں کے دوران دنیا کے بیشتر ممالک مالی مشکلات سے دو چار رہے ہیں۔ لیکن چین کا شمار ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خوشحالی کا دور دورہ رہا ہے۔ چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی رکنیت کے پہلے دس سال مکمل ہونے کی تقریب میں، چین کے صدر ہو جن تاؤ نے اس بات پر زور دیا کہ چین کی مضبوط معیشت سے ساری دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے ۔
مسٹر ہو نے عہد کیا کہ چین بدستور پُر امن ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا اور اس حکمت عملی پر کاربند رہے گا جس میں سب ہی کی جیت ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ چین اس عزم پر قائم ہے کہ وہ اپنی اقتصادی ترقی کا مقصد حاصل کرے گا اور یوں ساری دنیا کی مشترکہ ترقی کو فروغ دے گا۔
گذشتہ تین عشروں سے زیادہ عرصے سے چین کی معیشت دس فیصد سے زیادہ سالانہ شرح سے ترقی کرتی رہی ہے۔ چین کی اسٹیٹ کونسل کے سینیئر میکرو اکانومسٹ یو بن کہتے ہیں کہ ایسی علامتیں نظر آ رہی ہیں کہ چین میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کی مدت ختم ہونے والی ہے ۔
یو کہتے ہیں کہ اس سال چین کی اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح نو فیصد سے کم ہو گی۔ ان کا خیال ہے کہ یہ کم ہوکر8.5 فیصد ہو جائے گی۔ وہ کہتےہیں کہ اقتصادی ترقی کی شرح سست ہونے کی بہت سی مختلف وجوہات ہیں، لیکن ایک وجہ یہ ہے کہ چینی حکومت دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں، افراط زر پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔
یو نے کہا’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ اور یورپ کے بھاری قرضوں کے مسائل کے عارضی منفی اثرات کی وجہ سے چین میں اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو گئی ہے ۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ چینی حکومت نے دور اندیشی پر مبنی مالیاتی پالیسی اختیار کی ہے جس کا مقصد افراط زر پر قابو پانا ہے ۔‘‘
یو کہتے ہیں کہ عام استعمال کی چیزوں کی قیمت کے انڈیکس کے پیمانے کے مطابق، گذشتہ سال مجموعی افراطِ زر تقریباً چار فیصد رہا ۔ وہ کہتے ہیں اس سال بھی ہدف یہی ہو گا، لیکن انھوں نے انتباہ کیا کہ چین کے لوگوں کو اپنی مہنگائی کو برداشت کرنے کی صلاحیت بڑھانی ہوگی۔
ہانگ کانگ کے بینکنگ گروپ اے این زیڈ کے لیو لی گانگ نے پیشگوئی کی ہے کہ چین میں اس سال اقتصادی ترقی کی شرح گذشتہ سال کے مقابلے میں کچھ زیادہ رہے گی۔’’ہم سمجھتے ہیں کہ 2012 میں، نو فیصد کی شرح ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
لیو کہتے ہیں کہ چونکہ چین میں بنی ہوئی اشیاء کی بیرونی مانگ کم ہو گئی ہے، اس لیے چین کو ملک کے اندر اشیاء کے استعمال اور سرمایہ کاری کے ذریعے داخلی مانگ میں اضافہ کرنا ہو گا ۔’’ہم نے دیکھا ہے کہ سڑکوں، ریلوے، وغیرہ میں بہت پیسہ لگایا گیا ہے لیکن اُن شعبوں میں کافی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے جن کا تعلق چین کے لوگوں کی فلاح سے ہے۔ مثلاً ہسپتالوں میں، تعلیم میں کافی سرمایہ کاری نہیں کی گئی ہے ۔ میرے خیال میں حکومت انتظامی اقدامات کے ذریعے لوگوں کی بھلائی کے شعبوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرے گی تا کہ ملک میں سماجی استحکام قائم رکھا جا سکے۔‘‘
وہ ایک اور عوامی شعبے کی نشاندہی کرتے ہیں جو ان کے خیال میں اس سال کے دوران مسئلہ بنا رہے گا۔ ’’میں یہ کہوں گا کہ اگر کوئی مشکل پیش آئی، تو حکومت کو اپنے انتظامی اقدامات کا استعمال جاری رکھنا پڑے گا تا کہ حکومت کی نچلی سطح پر کرپشن کے خلاف کارروائی کی جا سکے ، سماجی استحکام، قائم رکھا جا سکے اور عام لوگوں میں بےچینی پر قابو پایا جا سکے۔‘‘
سرکاری ماہرِ معاشیات یو بن کہتے ہیں کہ حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ اسے اپنے ایک اعشاریہ تین ارب لوگوں کی بھلائی کے لیے زیادہ رقم خرچ کرنی چاہیئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بارہویں پانچ سالہ اقتصادی منصوبے میں، جس پر اس سال عمل شروع ہو گا، لوگوں کے روزگار کے حالات بہتر بنانے کو ایک کلیدی مقصد قرار دیا گیا ہے ۔