خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اندرونی طور پر عالمی ادارہ صحت کے حکام کرونا وائرس کے بارے چین سے ملنے والی معلومات پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے رہے۔ ان حکام نے اندرونی اجلاسوں میں اپنے ان خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ حکام سخت مایوسی کا شکار تھے۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس کا کہنا ہے کہ جنوری کے پورے مہینے عالمی ادارہ صحت چین کی سر عام تعریف کرتا رہا کہ اس نے کرونا وائرس کے سلسلے میں بر وقت مطلع کیا۔ اس نے بارہا چین کی حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے فوری طور پر وائرس کا جینیاتی نقشہ فراہم کیا۔ عالمی ادارہ صحت نے یہ بھی کہا کہ چین کا کام اور شفافیت بہت متاثر کن ہے۔
اے پی کے مطابق، پس پردہ کہانی بالکل مختلف تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے حکام کو مطلوبہ معلومات نہیں مل رہی تھیں اور وہ سخت مایوسی کے شکار تھے۔
تعریفوں کے باوجود حقیقت یہ تھی کہ چین نے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک جینیاتی نقشہ دبائے رکھا۔ اور اس وقت تک تین ملکوں کی تجربہ گاہوں میں ان معلومات کو مکمل طور سے ڈی کوڈ کر لیا گیا۔ اندرونی دستاویزات اور انٹرویوز سے پتا چلتا ہے کہ چین کے پبلک ہیلتھ نظام پر نہ صرف سخت کنٹرول تھا بلکہ مسابقت بھی جاری تھی۔ چین کی سرکاری لیبارٹری نے اسے اس وقت جاری کیا جب اس سے قبل ایک اور لیبارٹری اس کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کر چکی تھی۔
چین نے مریضوں اور کیسیز کے بارے میں مواد کو بھی روکے رکھا اور تقریباً دو ہفتوں بعد عالمی ادارہ صحت کو تفصیلی طور پر فراہم کیا۔
جنوری میں اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے اندر ہونے والے اجلاسوں کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوا کہ اگر بر وقت معلومات مل جاتیں تو اس عالمگیر وبائی مرض کے پھیلنے کی رفتار خاصی سست پڑ جاتی۔
ایسو سی ایٹیڈ پریس کو جو ریکارڈنگ ملی ہیں ان سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کے حکام چین کی بر سر عام تعریف اس لیے کر رہے تھے تاکہ وہ حکومت سے مزید معلومات حاصل کر سکیں؛ جبکہ چھ جون والے ہفتے کے دوران ہونے والی ایک دفتری میٹنگ میں نجی طور پر یہ شکایت کی گئی کہ چین اس ڈیٹا کو فراہم نہیں کر رہا جس کے ذریعے یہ جائزہ لیا جا سکے کہ کس طرح یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگ کر پھیلتا ہے۔ اور یہ پوری دنیا کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
متعدی امراض کی ایک امریکی ماہر ماریا وین کیرخوف آج کل عالمی ادارہ صحت میں کووڈ 19 کی ٹیکنکل ٹیم کی قیادت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کم سے کم معلومات پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے اور یہ واضح طور پر کافی نہیں ہے، جن کی روشنی میں آپ کوئی مناسب منصوبہ بندی کر سکیں۔
چین میں متعین عالمی ادراہ صحت کی اعلیٰ اہلکار ڈاکٹر گاڈین گیلیا نے ایک اور میٹنگ میں کہا کہ جو معلومات چین کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہوتی ہیں وہ ہمیں نشر ہونے سے پندرہ منٹ پہلے فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
یہ نئی اطلاعات نہ امریکہ اور نہ چین کے بیانیے کی تائید کرتی ہیں، بلکہ ایک ایسی ایجنسی کی کہانی بیان کرتی ہیں جو درمیان میں پھنس گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ مواد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے؛ ہر چند کہ اس کے اپنے اختیارات کی کچھ حدود ہیں، جن سے آگے وہ نہیں جا سکتی۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق، ہر ملک پر لازم ہے کہ وہ عالمی ادارہ صحت کو ایسی معلومات فراہم کرے جس سے صحت عامہ متاثر ہو سکتی ہے۔ مگر اقوام متحدہ کی ایجنسی کے پاس اس قانون پر عمل درآمد کروانے کا اختیار نہیں ہے۔ اور یہ آزادانہ طور پر ملکوں کے اندر کسی وبائی مرض کے بارے میں تحقیق و تفتیش بھی نہیں کر سکتی۔ یہ محض رکن ملکوں کے تعاون پر انحصار کر سکتی ہے۔
اس ریکارڈنگ سے یہ ظاہر ہوا کہ عالمی ادارہ صحت چین کے ساتھ کسی منصوبہ بندی میں شریک نہیں تھا، بلکہ یہ اندھیرے میں رہا اور چین نے کم سے کم وہ معلومات فراہم کیں جو قانونی طور پر لازم تھیں۔
ایجنسی نے چین کو پوری طرح منظر عام پر رکھا تاکہ مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین حقیقی طور پر یہ سمجھتے رہے کہ چینی سائنس دانوں نے وائرس کو دریافت اور ڈی کوڈ کر کے بڑا اچھا کام کیا ہے، جبکہ چین کے حکام کی طرف سے شفافیت کا فقدان تھا۔
جنوری کے دوسرے ہفتے میں عالمی ادارہ صحت کے ہنگامی حالات کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل رائین نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وقت آگیا ہے جب ہم اپنی حکمت عملی تبدیل کریں اور چین پر اپنا دباو بڑھائیں۔
انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں نظام تنفس میں شدید خرابی والی وبا دوبارہ نہ پھوٹ پڑے جو دو ہزار دو میں چین سے شروع ہوئی تھی اور عالم گیر سطح پر پھیلی۔ اس وبا میں تقریباً آٹھ سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔