چین کے ایک سفارت کار نے جمعرات کے روز پاکستان کی جانب سے کرونا وائرس سے متاثرہ چینی شہر سے اپنے شہریوں کو وطن واپس نہ لانے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ جب کہ ایک ہی روز قبل والدین نے حکومتی وزرا سے ملاقات کے دوران مطالبہ کیا تھا کہ ان کے بچوں کو ملک واپس لایا جائے۔
پاکستان نے اس امکان کو رد کیا ہے کہ صوبہ ہوبے اور دارالحکومت ووہان سے 1000 سے زائد طالب علموں کو ملک واپس لایا جائے گا، جہاں وائرس سے ہلاک ہونے والے 2000 افراد میں سے تین چوتھائی افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ فلو جیسا وائرس ہے جو وہاں پھیل چکا ہے۔
کراچی میں چین کے قونصل جنرل، لی بیجان نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’اگر طالب عملوں کی اتنی بڑی تعداد واپس آتی ہے تو ان کی صحت کی نگہداشت پر حکومت پاکستان کی بہت بڑی رقم خرچ ہو گی۔ اگر قرنطینہ کی سہولیات موجود نہیں ہیں تو اس صورت حال میں یہ وائرس پاکستان میں پھیل جائے گا‘‘۔
بدھ کے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس میں والدین نے سرکاری وزرا سے سخت الفاظ کا تبادلہ کیا، یہ مطالبہ دہراتے ہوئے کہ ان کے بچوں کو ووہاں سے نکالا جائے۔
لی نے کہا کہ طلبا کے لیے چین میں بہتر سہولیات موجود ہیں اور حکومت انھیں ادویات کے علاوہ ماسک اور سوٹ فراہم کر رہی ہے۔
چینی سفارت کار نے کہا کہ ’’ہم انھیں اپنے ہی بچے سمجھتے ہیں‘‘۔
رائٹرز کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور چین انتہائی قریبی اتحادی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو ٹیلی فون پر چینی صدر شی جن پنگ سے بات کی، جس دوران انھوں نے پاکستان کی جانب سے چینی قیادت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ بات پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہی گئی ہے۔