شام کے محصور علاقے میں سیکڑوں لوگ موت کے دہانے پر

آن لان جاری ہونے والی تصاویر میں زرد ہوتے چہروں والے نوزائیدہ بچوں کو اتنی کمزور حالت میں دکھایا گیا ہے کہ وہ رو بھی نہیں سکتے۔

شام کے صوبے ادلب میں سرکاری فورسز کے محاصرے کے شکار قصبے مضایا میں بچوں سمیت سیکڑوں افراد غذا کی قلت کے باعث موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

امدادی تنظیموں کے مطابق یہاں صورتحال اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ لوگ اپنے پالتو جانور کھانے پر مجبور ہیں جب کہ بعض لوگ صرف گھاس اور پتوں پر گزارا کر رہے ہیں۔

دنیا کو سنگینی کی صورتحال کا ادراک کروانے کے لیے بیتاب یہاں کے لوگ اکثر وڈیوز اور تصاویر آن لائن جاری کرتے رہتے ہیں جن میں زرد ہوتے چہروں والے نوزائیدہ بچوں کو اتنی کمزور حالت میں دکھایا گیا ہے کہ وہ رو بھی نہیں سکتے۔

ایک ماں اپنے سات ماہ کے بیٹے کو لے کر ایک مقامی شفا خانے گئی جہاں ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ بچے نے آخری بار دودھ پیا تھا، تو خاتون نے جواب دیا کہ ایک ماہ پہلے۔

خاتون کے بقول وہ بچے کو پانی اور نمک دیتی ہیں جب کہ ڈائپرز کی بجائے پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

یہاں بعض ڈاکٹرز بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے کھانسی کا شربت فراہم کرتے آرہے ہیں۔

طبی امداد کی بین الاقوامی تنظیم "ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز" بھی مضایا میں ایک اسپتال چلا رہی ہے۔ اس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر وکی ہاکنز کہتی ہیں کہ "لوگ حقیقاً موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ جس شفا خانے کا انتظام چلانے میں ہم مدد کر رہے ہیں وہاں اب تک بچوں سمیت 23 اموات ریکارڈ ہو چکی ہیں۔"

صدر بشارالاسد کی حامی فورسز نے اس قصبے کا محاصرہ کر رکھا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ مخالف فورسز مضایا میں موجود ہیں اور وہ آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔

وکی ہاکنز کہتی ہیں کہ یہ گھیرا گزشتہ تین ماہ سے بہت تنگ کر دیا گیا ہے جس کہ وجہ سے "مضایا میں کسی چیز کی رسائی نہیں، نہ یہاں ایندھن ہے نہ لوگوں کے پاس جلانے کے لیے لکڑیاں ہیں، نہ خوراک، نہ ادویا اور صورتحال تباہ کن ہو چلی ہے۔"

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یہاں امدادی سامان پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا اور آئندہ ہفتے مضایا کی صورتحال پر وہ بحث کا آغاز بھی ہونے جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان اڈریان ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ یہاں امدادی قافلہ بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔