جنگ زدہ علاقوں میں ہزاروں بچے سنگین زیادتیوں کا شکار ہیں:اقوام متحدہ

فائل فوٹو میں کمبل میں لپٹے افغان بچے دیکھے جا سکتے ہیں

اقوام متحدہ نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے کئی جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں بچوں کو گزشتہ سال جنسی زیادتی ، معذوری اور موت سمیت سنگین مظالم کا سامنا کرنا پڑا، اوراب یوکرین سمیت تنازعات کے نئے خطوں میں بچوں سے متعلق خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی ادارے کےسکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ ورجینیا گامبا نے کہا کہ "حقیقت یہ ہے کہ اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں بچے ہر سال کے ہر مہینے کے ہر ہفتے کے ہر دن تنازعات سے متاثرہ ریاستوں اور خطوں میں مسلح تصادم میں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔"

ورجینیا گامبا، بچوں اور مسلح تصادم کی خصوصی نمائندہ ہیں ، انہوں نے اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے، صحافیوں سےبات کرتے ہوئے اس صورت حال پر روشنی ڈالی ۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بچوں کے لیے سب سے خطرناک ملک افغانستان، عوامی جمہوریہ کانگو، اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقے، صومالیہ اور یمن تھے۔

ورجینیا گامبا کے دفتر نے معروضی سطح پر اقوام متحدہ کی ٹیموں کے ساتھ کام کرتے ہوئے بچوں کے خلاف تقریباً 24,000 سنگین خلاف ورزیوں کی تصدیق کی۔ تنازعات کے باعث 8000 سے زیادہ ہلاک یا معذور ہوئے۔ جمع کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 6310 بچوں کو بھرتی کیا گیا اور انہیں جنگوں میں استعمال کیا گیا جبکہ تقریباً 3500 دیگر بچوں کو اغوا کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق تشویشناک رجحانات میں بچوں کے اغوا اور جنسی تشدد میں نمایاں اضافہ شامل ہے۔ دونوں رجحانات میں سن 2020 کے مقابلے میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سوشل میڈیا پر بچوں کی مصروفیت پر کیسے نظر رکھی جائے؟

گامبا نے بتایا ہے کہ اغوا کی جانے والی بہت سی لڑکیوں کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ بوکو حرام اور اسلامی ریاست گروپ کی مغربی افریقہ کی شاخ جیسے مسلح گروپ اس مقصد کے لیے خاص طور پر لڑکیوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔ رپورٹ میں درج کیسز میں ستانوے فیصد واقعات میں جنسی تشدد لڑکیوں پر کیا گیا۔

سن 2020 تک، سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہونے والے ہر چار بچوں میں سے ایک لڑکی تھی، لیکن 2021 تک یہ شرح ہر تین میں سے ایک لڑکی ہوگئی۔

لڑکیوں کے خلاف سب سےزیادہ خلاف ورزیاں جھیل چاڈ بیسن کے علاقے میں ہوئیں جسے گزشتہ سال تنازعات کے شکار علاقوں شامل کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ جھیل چاڈ بیسن کے علاقے میں کیمرون، وسطی افریقی جمہوریہ، چاڈ، لیبیا، نائیجر اور نائیجیریا شامل ہیں۔ یہ ملک عدم استحکام، بین المسالک تشدد، دہشت گردی اور تنازعات کی مختلف حالتوں کا شکار ہیں۔

رپورٹ میں تصادم کے ستاون فریقوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے سات حکومت سے متعلقہ کارندے ہیں، جبکہ باقی غیر ریاستی گروہ ہیں۔

ریاستی مجرموں میں میانمار کی فوج کا اندراج بچوں کو معذور کرنے، قتل کرنے اور ان کو ریپ کے لیے ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

یوکرین جنگ میں کھیل کے میدان بھی محفوظ نہ رہے

غیر ریاستی گروہوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں دہشت گرد اور باغی گروپ جیسے کہ اسلامک اسٹیٹ، القاعدہ، بوکو حرام اور الشباب بھی شامل ہیں اور انہوں نے متعدد خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے۔

افغانستان کے طالبان کو بچوں کو بھرتی کرنے، معذور کرنے، قتل کرنے اور اغوا کرنے کے ساتھ ساتھ اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کرنے کے لیے بھی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

گامبا کے مطابق 2021 میں افغانستان میں ان کی نگرانی 15 اگست کو اس وقت ختم ہوئی، جب حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اقوام متحدہ نے اپنی توجہ انسانی ہنگامی صورتحال پر مرکوز کر دی۔ لیکن اس سے پہلے سال کے ساڑھے سات مہینوں میں بچوں کے خلاف تقریباً 3,000 تصدیق شدہ خلاف ورزیاں ہوئیں۔

عالمی ادارے کی نمائندہ نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کی زندگی میں انتہائی تنزلی کی صورت حال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں مانیٹرز نے کسی طریقے سے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

نئے تنازعات

خصوصی نمائندے کے دفتر کو اب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے فوری طور پر تشویش کی چار نئی صورتحال کی نگرانی شروع کرنے کا حکم دیا ہے جن میں ایتھوپیا، موزمبیق، یوکرین اور وسطی ساحل شامل ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغان جنگ کے بچوں اور خواتین پر اثرات

رپورٹ کے مطابق کچھ مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ فہرست میں شامل کچھ ممالک نے گامبا کے دفتر کے ساتھ ایکشن پلان پر دستخط کرنے اور ان کے ساتھ مشغول ہونے کے بعد بہتری دیکھی ہے۔

ان میں جنوبی سوڈان شامل ہے جو 2018 میں ہر سال بچوں کے خلاف 4,000 سے زیادہ خلاف ورزیوں کے ساتھ دوسرا سب سے بڑا مجرم تھا۔

آج ایک سال میں 300 سے بھی کم خلاف ورزیاں ہیں۔ گامبا نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کے مقابلے میں اب ایکشن پلانز کے مطابق لاگو کیے گئے اقدامات، قوانین، تربیت، صلاحیت موجود ہیں۔