کیا بیورو کریسی میں تبدیلیوں سے پنجاب میں گورننس بہتر ہوجائے گی؟

چیف سیکریٹری پنجاب میجر (ریٹائرڈ) اعظم سلیمان سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی ٹیم کا بھی حصہ رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبے پنجاب کی حکومت نے بڑے پیمانے پر سرکاری افسران کے تقرر و تبادلے کیے ہیں جس کے بعد ناقدین یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے من پسند سمجھے جانے والے افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔ البتہ، پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ حالیہ تبدیلیوں سے صوبے میں گورننس بہتر ہو گی۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے مطابق، پنجاب میں گورننس بہتر کرنے کے لیے تین ہفتے کی عرق ریزی کے بعد بہترین بیوروکریٹس کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ لیکن، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان میں بہت سے سرکاری افسران وہ ہیں جو شہباز شریف دور میں اہم عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں۔

پنجاب حکومت نے میجر (ریٹائرڈ) اعظم سلیمان کو چیف سیکریٹری پنجاب تعینات کیا ہے۔ کیپٹن (ریٹائرڈ) اسداللہ کو ورکس اینڈ کمیونی کیشن کا سیکریٹری جب کہ شہباز شریف کے دور میں سیکریٹری اطلاعات اور کمشنر فیصل آباد رہنے والے مومن آغا کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ تعینات کیا گیا ہے۔

'بیورو کریسی سے کام لینا سیاسی قیادت کا ہی کام ہے'

تجزیہ کاروں کے مطابق، بیورو کریسی کا کام سیاسی قیادت کے ویژن پر عمل درآمد کرانا ہوتا ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی 15 ماہ کی کارکردگی اتنی حوصلہ افزا نہیں رہی جس کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم کو بیورو کریسی میں ہی تبدیلیاں کرنا پڑی ہیں۔

سینئر صحافی سلیم بخاری کہتے ہیں 15 ماہ میں ایسا تیسری مرتبہ ہوا ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی میں اکھاڑ بچھاڑ کی گئی ہے۔ اُن کے بقول، "اگر حکومت ٹھیک کام کر رہی ہوتی تو ان تبدیلیوں کی ضرورت نہیں تھی۔"

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اگر امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوتی تو پانچ آئی جی پنجاب تبدیل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اسی طرح اگر بیوروکریسی ٹھیک کام کر رہی تھی تو 25 یا 26 سیکریٹریز بدلنے کی ضرورت نہیں تھی۔

ان کے بقول، اب پنجاب میں ایسے افسران کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ہے جو اچھی شہرت کے حامل ہیں اور شہباز شریف کے دور میں بڑے منصوبوں پر کام کر چکے ہیں۔

سینئر صحافی امتیاز عالم کہتے ہیں کہ ہر حکومت بیورو کریسی میں تبدیلیاں کرتی ہے۔ لیکن جس طرح اس حکومت نے تبدیلیاں کی ہیں اس سے افسران کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ انہیں بھی کسی بھی وقت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس کا اثر ان کی کارکردگی پر پڑتا ہے اور وہ دلجمعی سے اپنا کام نہیں کر سکتے۔

امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سوائے تبادلوں کے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ ان کے بقول، حالیہ تبدیلیوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اب پنجاب کو بیوروکریسی کے ذریعے چلایا جائے گا۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو پھر کابینہ کا کیا فائدہ، ان اسمبلیوں کی پھر کیا افادیت رہ جاتی ہے۔

سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ بیوروکریسی ماضی میں کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ کام کرتی آئی ہے۔ ان کے بقول، موجودہ حکومت نے یہ تسلسل توڑا ہے۔ لہٰذا، بیوروکریسی کو اس نئے نظام سے ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔

'عثمان بزدار اپنے کاموں کی تشہیر کریں'

وزیر اعظم عمران خان سیاسی مخالفین کی عثمان بزدار پر تنقید بلکہ خود اپنی جماعت کے تحفظات کے باوجود بدستور وزیر اعلیٰ پنجاب کی حمایت کر رہے ہیں۔

اپنے حالیہ دورہ لاہور کے دوران ایک بار پھر عمران خان نے عثمان بزدار کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ وہ خاموشی سے کام کرنے کے عادی ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنے کاموں کی تشہیر کرنی چاہیے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، عثمان بزدار کے راستے میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو وزیر اعظم دور کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر شہباز گل اور عون چوہدری کے معاملے سے لے کر فیاض الحسن چوہان کو دوبارہ محکمہ اطلاعات کا قلمدان سونپنے تک ہر معاملے پر تجزیہ کاروں کے بقول، وزیر اعظم نے عثمان بزدار کو فری ہینڈ دیا ہے۔

البتہ، سلیم بخاری کہتے ہیں کہ وہ یہ سمجھے سے قاصر ہیں کہ عثمان بزدار نے 15 ماہ میں کون سے ایسے کام کیے ہیں، جن کی تشہیر کی جانب وزیر اعظم اشارہ کر رہے ہیں۔

سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پہلے بھی ایسے وزرائے اعلیٰ رہے ہیں جن کی قابلیت پر لوگ سوال اٹھاتے تھے۔ البتہ، سرکاری مشینری صحیح کام کرے تو صوبے میں بہتری آ سکتی ہے۔

شمشاد احمد خان کے بقول، وزیر اعلیٰ تن تنہا فیصلہ نہیں کرتا، وہ اپنی کابینہ سے مشاورت کے بعد پالیسی دیتا ہے، جس پر بیورو کریسی عمل درآمد کراتی ہے۔

شمشاد احمد خان کہتے ہیں عثمان بزدار نئے ہیں ہو سکتا ہے جب شہباز شریف پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے تھے اس وقت انہیں بھی مشکلات کا سامنا رہا ہو۔ لہٰذا یہ توقع رکھنی چاہیے کہ بیورو کریسی میں تبدیلیوں سے صوبے کی کارکردگی بہتر ہو گی۔

کیا بیورو کریسی نیب سے خوفزدہ ہے؟

امتیاز عالم کہتے ہیں کہ بیوروکریسی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری رہنے والے فواد حسن فواد اور سابق ڈی جی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) احد چیمہ کی قومی احتساب بیورو (نیب) کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد بہت محتاط ہے، اور اس کا اثر کارکردگی پر پڑتا ہے۔

اُن کے بقول، "اب سیکریٹری صاحبان کسی بڑے منصوبے پر کام کرنے سے کتراتے ہیں۔ زیر التوا فائلوں کے انبار لگ رہے ہیں۔ انہیں یا تو نیب کا خوف رہتا ہے یا وہ اس خدشے کا شکار رہتے ہیں کہ انہیں کسی بھی وقت تبدیل کر دیا جائے گا۔"

سلیم بخاری کہتے ہیں نیب نے جس طرح بیوروکریٹس کی تذلیل کی ہے کہ اس کے بعد بیوروکریٹس کوئی رسک لینے کو تیار نہیں۔ بیوروکریٹس وزیرِ اعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر وہ کسی بڑے منصوبے کی منظوری دیں گے تو نیب ان کے خلاف حرکت میں آ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اور ایل ڈی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ کرپشن الزامات کے تحت کئی مہینوں سے نیب کی زیرِ حراست ہیں۔

SEE ALSO: وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے آم کیوں لوٹا دیے گئے؟

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اس ضمن میں نیب کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اگر بیوروکریسی خوفزدہ رہے گی تو وہ کام نہیں کرے گی اور اس کا اثر انتظامی مشینری کے غیر فعال ہونے کی شکل میں سامنے آئے گا۔

حکومت پنجاب کا مؤقف

پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت پنجاب کی بیوروکریسی میں کی جانے والی تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا اختیار ہے کہ کس سیکریٹری کو کہاں تعینات کرنا ہے۔

اُن کے بقول، بیوروکریسی کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا۔ یہ کوئی قانون نہیں کہ شہباز شریف کے دور میں فعال رہنے والے بیوروکریٹس کو دوبارہ تعینات نہیں کیا جا سکتا۔

راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ ان تبدیلیوں سے صوبے کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور عوام کو براہِ راست اس کا فائدہ پہنچے گا۔