بھارت میں صدارتی انتخاب: پہلی بار قبائلی خاتون کے صدر بننے کے قوی امکانات

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والے حکمراں محاذ ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کی جانب سے ایک قبائلی خاتون سیاست داں دروپدی مورمو اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے سابق بیوروکریٹ اور سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کو امیدوار بنایا گیا ہے۔

بھارت کے 15 ویں صدر کے انتخابات کے لیے پیر کو پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں اور مرکز کے زیرِ اہتمام علاقوں کے قانون سازوں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ صدارتی انتخابات کے لیے تقریباً چار ہزار قانون سازوں نے ووٹ ڈالے۔

صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان 21 جولائی کو کیا جائے گا جب کہ 25 جولائی کو نئے صدر حلف اُٹھائیں گے۔ موجودہ صدر رام ناتھ کووند کی مدت 24 جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والے حکمراں محاذ ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کی جانب سے ایک قبائلی خاتون سیاست دان دروپدی مورمو اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے سابق بیوروکریٹ اور سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کو امیدوار بنایا گیا ہے۔

دروپدی مورمو کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں۔ حکمراں محاذ کے علاوہ حزبِ اختلاف کی متعدد جماعتوں کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ انہیں دو تہائی ووٹ حاصل ہو جائیں گے۔

یشونت سنہا نے ووٹنگ سے ایک روز قبل ایک ٹویٹ کے ذریعے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے تمام ارکان سے اپیل کی کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیں۔ کیونکہ بقول ان کے یہ الیکشن جمہوریت کا راستہ متعین کرے گا۔

ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی صدر اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی تحریک پر حزب اختلاف کی جانب سے پہلے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے صدر شرد پوار، سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ اور مہاتما گاندھی کے پوتے گوپال کرشن گاندھی کو امیدوار بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن ان کے انکار کے بعد یشونت سنہا کو امیدوار بنایا گیا۔ اس وقت سنہا ٹی ایم سی کے نائب صدر تھے۔

یشونت سنہا نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ صرف ایک سیاسی لڑائی ہی نہیں لڑ رہے بلکہ حکومت کی ایجنسیوں کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ جمہوریت کے تحفظ کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ جب کہ دروپدی مورمو کی حمایت وہ لوگ کر رہے ہیں جو کہ روزانہ جمہوریت پر حملہ کر تے ہیں۔ ان کے مطابق اگر مورمو جیت گئیں تو وہ ایک ربر اسٹیمپ صدر ہوں گی۔


دروپدی مورمو نے ووٹنگ سے قبل کہا کہ صدر کے منصب کے لیے ان کی نامزدگی ایک تاریخی لمحہ ہے، خاص طور پر قبائلی برادری اور خواتین کے اندر اس کی وجہ سے جوش پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں اور انہوں نے زندگی میں بہت جد و جہد کی ہے۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ دروپدی مورمو کو صدر کا امیدوار نامزد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت قبائلیوں، خواتین اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے فکرمند ہے۔

'یہ بی جے پی کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دروپدی مورمو کو صدر کا امیدوار نامزد کرنا حکومت کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ کیونکہ بہت جلد گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

ان چاروں ریاستوں میں 128 اسمبلی نشستیں درج فہرست ذاتوں یا قبائلیوں کے لیے مخصوص ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ان میں سے 35 نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی ملی تھی۔ اڑیسہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹرا، تیلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں قبائلی آبادی کے غلبے والے 97 اسمبلی حلقے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار نیلانجن مکھو پادھیائے کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے صرف مقامی سیاست کو ذہن میں رکھ کر دروپدی مورمو کو صدر کا امیدوار بنایا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ مورمو کو اس لیے صدر بنایا جا رہا ہے تاکہ آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں قبائلیوں کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔

ان کے بقول یہ حکومت اس قسم کی سیاست کرنے میں ماہر ہے۔ اس سے قبل جب رام ناتھ کووند کو صدر بنایا گیا تھا تو اس وقت بھی سیاست کو ذہن میں رکھا گیاتھا اور کہا گیا تھا کہ ان کے صدر بننے سے دلتوں کے حالات بہتر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب مورمو کو امیدوار بنائے جانے پر کہا گیا کہ قبائلیوں میں اعتماد پیدا ہوگا۔ لیکن رام ناتھ کووند کے صدر رہتے ہوئے نہ تو دلتوں کے مسائل کم ہوئے اور نہ ہی مورمو کے صدر بنائے جانے سے قبائلیوں کے حالات بہتر ہونے کی کوئی امید ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتیں بھی صدر کے دفتر کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ لیکن یہ حکومت علامتوں کی سیاست کرتی ہے اور اس میں ماہر ہے۔

یشونت سنہا کے اس بیان پر کہ دروپدی مورمو ایک ربر اسٹیمپ صدر ثابت ہوں گی، نیلانجن نے کہا کہ گزشتہ پانچ برس میں صدر رام ناتھ کووند نے ایک بار بھی حکومت کے غلط کاموں پر اسے تنبیہہ نہیں کی۔

ان کے بقول اگر دروپدی مورمو جیت جاتی ہیں، جس کا قوی امکان ہے تو آئندہ پانچ سال بھی اسی طرح گزریں گے۔

ان کے مطابق صدر کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر حکومت آئین اور جمہوریت کے دائرے سے باہر نکل کر کوئی کام کرتی ہے تو وہ حکومت کو متنبہ کرے اور ضروری قدم اٹھائے۔ گزشتہ پانچ سال میں ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا اور ایسا لگتا ہے کہ آئندہ پانچ سال بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

دروپدی مورمو کون ہیں؟

دروپدی مورمو جون 1958 میں اڑیسہ کے میوربھنج ضلع کے ایک غریب قبائلی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں کچھ دنوں تک اڑیسہ کے سکریٹریٹ میں ملازمت کی تھی۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ اسکول ٹیچر تھیں۔

وہ 1997 میں سیاست میں آئیں اور اڑیسہ کے رائے رنگ پور ضلع میں بی جے پی کے ٹکٹ پر کونسلر منتخب ہوئیں۔ تین سال بعد وہ وہاں سے بی جے پی کی رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔

جب 2000 میں اڑیسہ میں بی جے پی اور بیجو جنتا دل کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو انہیں وزیر بنایا گیا۔ انہیں 2007 میں اڑیسہ کے بہترین رکن اسمبلی کا ایواڈ بھی دیا گیا۔

انہوں نے بی جے پی کی میور بھنج ضلع کی صدر اور پارٹی کی درج فہرست یا قبائلی شاخ کی صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ انہیں 2015 میں مودی حکومت کی جانب سے جھارکھنڈ کا گورنر نامزد کیا گیا۔ وہ ریاست کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔

اس وقت انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت جد و جہد کی ہے۔ دو بیٹوں اور شوہر کے انتقال سے ان کی زندگی تباہ ہو گئی تھی۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

یشونت سنہا کون ہیں؟

یشونت سنہا نومبر 1937 میں پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ وہ 1960 میں انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس (آئی اے ایس) کے لیے منتخب ہوئے۔ انہوں نے اعلیٰ انتظامی عہدے دار اور سفارت کار کی حیثیت سے 24 برس تک خدمات انجام دیں۔

وہ 1984 میں سیاست میں آئے۔ وہ پہلے جنتا پارٹی اور اس کے بعد جنتا دل میں مختلف عہدوں پر رہے۔ بعد میں انہوں نے بی جے پی جوائن کر لیا۔ انہیں 1996 میں پارٹی کا قومی ترجمان مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر وہ 2005 تک رہے۔

وہ پہلے راجیہ سبھا اور پھر لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ نومبر 1990 سے جون 1991 تک کی مختصر مدت والی وزیر اعظم چندر شیکھر کی کابینہ میں وزیر رہے۔

انہیں 1999 میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں وزیر مالیات بنایاگیا۔ وہ 2002 تک وزیر خزانہ رہے۔

لیکن جب نتن گٹکری بی جے پی کے صدر ہوئے تو پارٹی میں ان کا کردار کم کر دیا گیا اور پھر انہوں نے 2018 میں بی جے پی چھوڑ دی۔ کچھ دنوں قبل انہوں نے ٹی ایم سی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہیں پارٹی کا نائب صدر بنایا گیا تھا۔