سمارٹ فون پاکستان کی زرعی پیداوار میں اضافہ کرے گا

اسلام آباد کے مضافات میں ایک کسان گندم کی فصل کاٹ رہا ہے۔ فائل فوٹو

موبائل فون کے یہ پیغامات ایک خود کار نظام کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں۔ اس نظام میں سیٹلائٹ سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور اسے کمپیوٹر کے پروگرام میں استعمال کر کے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں جس سے ہر کسان کی ضرورت کا تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اسے اپنی بوئی ہوئی فصل کے لیے اس وقت کتنے پانی کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں زرعی شعبے کی ترقی اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے ایک نئے ذریعے کے طور پر موبائل فون اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی سن 2013 کی ایک رپورٹ میں پاکستان کا شمار ایسے ملکوں میں کیاتھا جنہیں پانی کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں محض 30 دنوں کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے پاس کم از کم ایک ہزار دنوں کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

پاکستان میں فی کس پانی کی مقدار اتنی ہی ہے جتنی کہ شام کی ہے۔ شام میں پانی کی قلت سے قحط جیسی صورت حال پیدا ہوئی جس نے خانہ جنگی کی راہ ہموار کی۔

پاکستان میں پانی کے بحران کے متعدد اسباب ہیں، جن میں آب و ہوا کی تبدیلی، آبادی میں تیز تر اضافہ، مقامی سطح پر ناقص بندوبست اور پانی سے متعلق کسانوں کی ضرورتوں میں اضافہ۔

پانی کا بحران پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مزید عدم استحکام کی جانب دھکیل سکتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان دریائی پانی تقسیم ہوتا ہے۔

پاکستانی کسانوں کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی نکالنے کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے کیونکہ بجلی کی شدید قلت کے باعث کسانوں کو ڈیزل انجن سے ٹیوب ویل چلانے پڑتے ہیں۔

جیسے جیسے زمین سے پانی نکالا جا رہا ہے اس کی زیر زمین سطح گرتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں پانی اوپر کھینچنے کے لیے زیادہ ڈیزل استعمال کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کے اکثر کسان کاشت کاری کے جدید تقاضوں سے آگاہ نہیں ہیں اور وہ فصلوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ پانی دے دیتے ہیں جس سے ایک طرف پانی کا خرچہ بڑھتا ہے اور دوسری طرف فی ایکٹر پیداوار گر جاتی ہے۔ فصلوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ سیراب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر کسانوں نے اپنے بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ زیادہ پانی سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ کے پانی کے وسائل کے شعبے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چاول کے کاشت کار اپنی فصل کو اس کی ضرورت سے تین گنا زیادہ پانی دیتے ہیں۔

پاکستانی ماہرین نے یونیورسٹی آف واشنگٹن کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کاشت کاروں کو فصلوں کی آبیاری سے متعلق آگاہی کا ایک پروگرام ترتیب دیا ہے۔

پاکستان نے پچھلے سال موسم بہار میں اس پروگرام کا آغاز کیا تھا اور پہلے پروگرام میں 700 کاشت کاروں کو شامل کیا گیا تھا۔

اس سال جنوری تک دس ہزار سے زیادہ کسانوں کو اپنے موبائل فون پر ماہرین کی جانب سے ٹیکسٹ میسج وصول ہو رہے تھے جن میں مثال کے طور پر یہ بتایا جا تا تھا کہ آپ کی کیلے کی فصل کو اس ہفتے 2 انچ تک پانی کی ضرورت ہے۔

موبائل فون کے یہ پیغامات ایک خود کار نظام کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں ۔ اس نظام میں سیٹلائٹ سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور اسے کمپیوٹر کے پروگرام میں استعمال کر کے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں جس سے ہر کسان کی ضرورت کا تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اسے اپنی بوئی ہوئی فصل کے لیے اس وقت کتنے پانی کی ضرورت ہے ۔ جس کے بعد اس کے موبائل فون پر ٹیکسٹ بھیج دیا جاتا ہے۔ اور پھر اس سے مسلسل رابطہ رکھا جاتا ہے اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ادارے کے مشوروں سے کی پیداوار پر کیا اثر پڑا۔

ادارے کے ایک عہدے دار فیصل حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ایک کسان نے ہمیں بتایا تھا کہ اس کی گندم کی فصل اپنے ہمسائے کے مقابلے میں 700 کلوگرام فی ایکٹر زیادہ ہوئی ۔

پنجاب کی حکومت کسانوں کو اس نظام میں لانے اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے 50 لاکھ سمارٹ فون کسانوں میں تقسیم کرنے جا رہی ہے۔