مشترکہ مفاد کونسل نے وزیراعظم کی سربراہی میں پیر کو ہونے والے اجلاس میں ملک میں جاری سکیورٹی آپریشنز اور فوج کی مصروفیات کے باعث مارچ میں طے مردم شماری کو مؤخر کر دیا ہے۔ تاہم اس کے لیے نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
ایک سال قبل مشترکہ مفاد کونسل کے اجلاس میں رواں سال مارچ میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس پر ستمبر سے تیاری کی جا رہی تھی۔
مردم شماری کرانے والے ادارے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق ملک میں ایک لاکھ 67 ہزار حلقوں کا تعین کیا گیا ہے جن میں موجود آبادی کی عمر، جنس، نسل، مذہب، تعلیم اور ذرائع روزگار وغیرہ کے اعدادوشمار اکٹھے کرنے کے عمل کی نگرانی کے لیے ساڑھے تین لاکھ سے زائد فوجی درکار ہیں۔
اطلاعات کے مطابق فوج کی طرف سے مردم شماری کے دوران صرف ایک لاکھ فوجی تعینات کرنے کی رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے۔
نقل و حرکت کرنے والی آبادی کے کوائف دو مرتبہ اکٹھے کیے جانے سے بچنے کے لیے پورے ملک میں ایک ہی دن میں مردم شماری کا عمل مکمل کیا جانا ضروری ہے۔ تاہم ملک کے کچھ حصوں میں امن وامان کی مخدوش صورتحال اور فوج کی درکار نفری کی عدم دستیابی کے باعث مقررہ شیڈول کے مطابق ایسا کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔
مردم شماری سیاسی لحاظ سے بھی حساس مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان کی کچھ ثقافتی، نسلی اور مذہبی برادریوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں ان کی آبادی کے لحاظ سے سیاسی نمائندگی اور ملک کے وسائل میں حصہ نہیں دیا جا رہا۔
سندھ میں اردو بولنے والی شہری اور سندھی بولنے والی دیہی آبادی میں سیاسی تناؤ رہا ہے اور سندھ حکومت کا مطالبہ تھا کہ مردم شماری کو شفاف اور قابل اعتماد بنانے کے لیے اسے فوج کی نگرانی میں کرایا جائے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ صوبوں کے کچھ حصوں میں سکیورٹی کی نازک صورتحال کے باعث مردم شماری کے لیے تفصیلات اکٹھی کرنے والے افراد کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
جبکہ بلوچستان میں کچھ سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض بھی سامنے آیا تھا کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین آباد ہیں جو مردم شماری کے دوران اپنے آپ کو پاکستانی شہری ظاہر کر سکتے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی تک مردم شماری نہ کروائی جائے۔
پاکستان میں آخری مرتبہ 1998 میں مردم شماری کی گئی تھی اور اگلی مردم شماری 2008 میں کی جانی تھی مگر مختلف وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں کیا جا سکا۔
ماہری اقتصادیات ڈاکٹر عابد سلہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ موثر پالیسی سازی اور ترقیاتی منصوبہ بندی کے لیے وسیع پیمانے سے اکٹھی کی گئی باوثوق معلومات کا ہونا بہت ضروری ہے۔
’’چونکہ یہ مسئلہ سیاست کی نظر ہو گیا اور اس پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو پایا جو پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے کے لیے قطعی طور پر مثبت چیز نہیں ہے۔ ہمیں اس وقت دیکھنا ہے کہ آئندہ آنے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ہمارے پاس آبادی کی تعداد کیا ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے ہمیں پتا ہو کہ کتنی آبادی کے لیے کیا تیاریاں کرنی ہیں۔ اب ہم انتظار کریں گے کہ اگلی مردم شماری کی تاریخ کب سامنے آتی ہے۔‘‘
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق مردم شماری کی اگلی تاریخ کا اعلان متعلقہ افراد اور اداروں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔