بیس برس گزرنے کے بعد، جس دوران دو بار مدت میں توسیع دی گئی، خلائی گاڑی ’کیسینی‘ جمعے کے روز زحل سیارے پر آخری ڈبکی لگانے پر تیار کھڑی ہے۔
’ناسا‘ کی مخصوص لیباریٹری کے سائنس دانوں اور انجنیئروں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے خلائی گاڑی کو اس طرح بھسم کرنے کا فیصلہ اس وجہ سے کیا ہے، کیونکہ مشن کے دوران اُنھیں زحل کے چاند کے سیاروں پر زندگی کے کچھ آثار نظر آئے ہیں۔
مورگن کیبل ’کیسینی‘ کے سائنسی نظام کی انجنیئرنگ کے منصوبے کے معاون سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’’منصوبے کو ڈزائن کرتے وقت ہمیں اس بات کا خیال نہیں تھا کہ اِس گہرے نظام شمسی میں سمندر کی دنیائیں آباد ہیں‘‘۔
زحل کے چاندوں پر سمندروں کی دریافت کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں زندگی کا وجود ہوگا۔
پہلی غیر متوقع دریافت اُس وقت سامنے آئی جب قطبِ جنوبی کے ’انسیلادوس‘ حصے پر زحل کے چھلے دار کونے پر ایک چاند سا مکھڑا دیکھا گیا۔
مولی بٹنر، کیسینی خلائی گاڑی کے موجد نظاموں کی انجینئر ہیں۔ اُن کے الفاظ میں ’’اِس کی تہ کے اندر رقیق پانی کا سمندر بَل کھا رہا ہے، جس سے گرم چشمے پھوٹتے ہیں، جو شگاف کی شکل اختیار کرتے ہیں، اور پھر اُن سے گرم چشمے ابلنے لگتے ہیں‘‘۔
کیسینی پر نصب آلات نے گرم چشمے سے ابلتی ہوئی گیس کے ذرات کا ذائقہ چکھ لیا ہے۔
کیبل نے بتایا کہ ’’ہمیں پتا ہے کہ وہاں نمکیات موجود ہیں۔ اور یہ بات حیات کی نشاندہی کرتی ہے، چونکہ زندگی کو کچھ معدنیات کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور، یہاں نمک موجود ہیں۔ ہمیں ٹھوس ثبوت مل چکا ہے کہ سمندر کی تہ میں آبی حرارت کے سوراخ موجود ہیں، جو سمندر کے بہاؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا ہے کہ جب زمین پر ہمیں آبی حرارت کے سوراخ ملتے ہیں تو آپ کو بیشمار نامیاتی وجود کا پتا چلتا ہے‘‘۔
کیسینی کی مدد سے سائنس داں زحل کے سب سے بڑے چاند، ’ٹیٹان‘ سے ڈیٹا اکٹھا کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ ٹیٹان پر پانی کی جگہ، ’لیتھین‘ اور ’ایتھین‘ کے مائع پر مبنی جھیلیں اور سمندر دریافت ہوئے ہیں۔ اس بات کا بھی ثبوت موجود ہے کہ اس کہ تہ کے اندر مائع سمندر موجیں مار رہا ہے، جس میں شاید ’امونیا‘ اور پانی موجود ہے۔ سائنس داں اور انجنیئر کہتے ہیں کہ ایسی فضا میں حیات کو برقرار رکھنا عین ممکن ہے۔
کیبل کے بقول، ’’ہم ابھی تک زندگی کے ایسے سحر انگیز مقامات کا کھوج لگا رہے ہیں، اور ہمارے سامنے نظام شمسی کا یہ ایک عجیب نظارہ ہے‘‘۔