پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں انگریزی روزنامے 'ایکسپریس ٹریبیون' سے منسلک صحافی بلال فاروقی کو پولیس نے گرفتار کرنے کے چند گھنٹوں بعد رہا کر دیا۔ دوسری جانب سابق چیئرمین پیمرا سینئر صحافی ابصار عالم کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
صحافی بلال فاروقی کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کراچی کے ڈیفنس تھانے میں مقدمے کے اندراج کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں رات گئے شخصی ضمانت پر رہائی دی گئی۔
پولیس نے بلال فاروقی کے خلاف ہتک عزت اور عوام میں فساد پھیلانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ مقدمے میں پریونیشن آف کرائمز ایکٹ کے تحت نفرت انگیز تقریر اور کسی شخص کے خلاف غلط معلومات پھیلا کر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ان پر ایک شہری نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے فیس بک اور ٹوئٹر پر پاکستان کی فوج اور مذہبی منافرت پر مبنی انتہائی اشتعال انگیز پوسٹس کیں جن میں پاکستان کی فوج سے بغاوت کا مواد شامل تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق بلال فاروقی نے پاکستان کی فوج کو بدنام کیا۔ یہ پوسٹس وطن دشمن عناصر اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
تاہم رات گئے پولیس نے بلال فاروقی کو شخصی ضمانت پر رہا کر دیا۔
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے سوشل میڈیا پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بلال فاروقی کو پولیس نے رہا کرنے کے بعد گھر واپس چھوڑ دیا ہے۔
تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ ان پر الزامات کی نوعیت کیا تھی اور انہیں کیوں فوری رہا کر دیا گیا۔
Hes been released and is being taken back to his residence by police https://t.co/LhdLoNZ3eN
— Murtaza Wahab Siddiqui (@murtazawahab1) September 11, 2020
صحافی بلال فاروقی ہفتے کی صبح اپنے خلاف درج مقدمے میں عدالت میں پیش ہوئے۔ جہاں پولیس کی جانب سے مقدمے میں غلط دفعات کے اندراج پر عدالت نے اظہارِ برہمی کیا اور پولیس کو 14 دن میں کیس کا چالان پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بلال فاروقی نے الزمات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
بلال فاروقی کا کہنا ہے کہ جس طرح سے مجھ پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کیے گئے ہیں اور خبر چلائی گئی۔ تو اس سے یہ تاثر دیا گیا کہ انہوں نے کوئی مذہبی منافرت پھیلائی یا مذہبی لحاظ سے پروپیگنڈا کیا۔
ان کے بقول ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ جس جانب جانب جا رہا ہے۔ اس میں ان الزامات سے عدالت سے بری ہونے کے باوجود بھی معاشرے میں مبینہ ملزم کو مجرم ہی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بلال فاروقی کے مطابق وہ اپنےخلاف الزامات کا قانونی طور پر ضرور مقابلہ کریں گے۔ کیوں کہ یہ الزامات مکمل طور پر من گھڑت ہیں اور وہ انہیں نہیں مانتے۔
ابصار عالم کے خلاف غداری کا مقدمہ درج
دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ضلع جہلم کے تھانہ دینہ میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین سینئر صحافی ابصار عالم کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
تھانہ دینہ میں مقدمہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لائرز فورم سے منسلک چوہدری نوید احمد ایڈووکیٹ کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔
اپنی درخواست میں چوہدری نوید احمد ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ابصار عالم نے پاکستان کی فوج اور وزیرِ اعظم پاکستان کے خلاف انتہائی نامناسب زبان استعمال کی۔ جو کہ غداری کے زمرے میں آتی ہے۔
چوہدری نوید احمد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ابصار عالم ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ لہذا ان کے خلاف دستورِ پاکستان کے آرٹیکل چھ کے تحت 'سنگین غداری' کا مقدمہ درج کیا جائے۔
ابصار عالم پر لگنے والی دفعات
ابصار عالم پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا جا سکا۔ البتہ ان پر پاکستان پینل کوڈ کی پانچ مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جن میں دفعہ 124 اے غداری سے متعلق ہے اور اس میں تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
ایسے غداری کے مُقدمے تو اعزاز ہیں ایک فسطائی نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے۔ہمیں تو مُشرف نا دبا سکا تو میری جان، جنرل باجوہ، کس گُمان میں ہے رسیداں کڈو#bajwaleaks pic.twitter.com/R4TsTWgaI5
— Absar Alam (@AbsarAlamHaider) September 11, 2020
دوسری دفعہ 131 ہے۔ جو کہ افواج پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے سے متعلق ہے اور اس میں 10 سال سے عمر قید تک کی سزا اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
تیسری دفعہ 499 ہے جو کسی کی ہتک یا توہین کرنے سے متعلق ہے۔ اس دفعہ کے تحت 2 سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
چوتھی دفعہ 505 ہے۔ جو عام شہریوں کو گمراہ کرنے اور افواہیں پھیلانے سے متعلق ہے۔ جس کے تحت مجرم کو 7 سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
آخری دفعہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعہ 20 ہے۔ جس میں الیکٹرانک آلات کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ اس دفعہ کے تحت دو سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
ابصار عالم کا ردعمل
ابصار عالم نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قسم کی ایف آئی آر سے قطعی خوفزدہ نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی بطور چیئرمین پیمرا ان کے خلاف کئی مقدمات درج ہوئے۔
اس سوال پر کہ ان کی کونسی ایسی ٹوئٹ تھی، جس کی بنا پر ان کے خلاف یہ مقدمہ درج کیا گیا۔ تو ابصار عالم نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کئی ٹوئٹس کرتے رہتے ہیں۔ جن میں وہ اکثر مختلف معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں قانونی راستہ اختیار کریں گے اور اپنے وکلا سے مشورہ کرنے کے بعد اس کیس کو ہینڈل کریں گے۔
بچے کس یونیورسٹی میں پڑھے؟فیس کتنی تھی؟پیسہ باہر کیسے جاتا تھا؟جتنی تنخواہ تھی اُس میں گھر کا خرچ نکال کر، بچوں کا باہر کا خرچ نکال کر پھربھی اتنی رقم بچ گئی کہ بیوی کو کاروبار بھی کروادیا۔ کیسے؟جب بیوی نے حصہ چھوڑا تو کتنی رقم آئی، کس اکاؤنٹ میں گئی؟منی ٹریل دورسیداں کڈو
— Absar Alam (@AbsarAlamHaider) September 3, 2020
ابصار عالم نے گزشتہ دنوں ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایسے غداری کے مقدمے تو اعزاز ہیں۔
پولیس کیا کہتی ہے؟
اس بارے میں تھانہ دینہ سے رابطہ کیا گیا تو ڈیوٹی پر موجود محرر نے نام بتانے سے معذرت کی۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ ‘لیگل ڈیپارٹمنٹ’ کی طرف سے قانونی رائے آنے کے بعد درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں شامل ایک خانے میں، جو تاخیر سے درج ہونے والے مقدمات کی وجہ بیان کرتا ہے، کہا گیا ہے کہ حسب آمد درخواست مقدمہ درج ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہنگامہ
ابصار عالم کے خلاف مقدمے کے اندراج اور کراچی میں صحافی بلال فاروقی کی گرفتاری پر صحافیوں اور سیاسی کارکنوں نے حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔
صحافیوں کی بڑی تعداد نے ابصار عالم سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
'ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان' نے بھی ابصار عالم کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کی مذمت کی ہے۔
HRCP condemns the filing of a sedition case against renowned journalist and former chairman PEMRA #AbsarAlam. We believe this is yet another attempt by the government to silence any voices of dissent and curb freedom of expression.
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) September 11, 2020
ایک بیان میں کمشن کا کہنا ہے کہ کمشن ابصار عالم کے خلاف غداری کے مقدمے کی مذمت کرتا ہے۔ یہ حکومت کی طرف سے آزادی اظہار رائے اور اختلاف رائے کو دبانے کی ایک اور کوشش ہے۔
حکومتی مؤقف
اس بارے میں اب تک کسی حکومتی شخصیت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ انصاف لائرز فورم کے بعض نوجوان وکلا نے صحافیوں کے خلاف جو مقدمہ درج کرایا ہے، وہ اس کے سخت خلاف ہیں۔