تیونس میں آزادی اظہار کی جنگ لڑنے والی نادیہ خیری کی 'بلی'

کارٹون کیٹ کی خالق، نادیہ خیری، فائل فوٹو

جب تیونس کے سابقہ آمر زین العابدین بن علی نے ملک بھر میں مظاہروں کے بعد اقتدار سے رخصت کے وقت اپنی آخری تقریر میں سیاسی آزادیوں کا وعدہ کیا تو نادیہ خیری نے اپنی بلی اور چوہوں کے گروہ پر کارٹون بنایا۔

اگلے روز زین العابدین بن علی کئی ہفتوں پر مبنی مظاہروں کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

دس سال بعد ان کی بلی تو عمر رسیدہ اور بیمار ہے مگر ان کا ہمزاد کارٹون ’ولز فرام ٹیونس‘ انقلاب کا نشان بن چکا ہے۔

نادیہ خیری نے، جو خود ایک پینٹر ہیں اور فائن آرٹس کی لیکچرار بھی ہیں، اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک فن کار کے طور پر میرے لیے یہ حقیقی انقلاب تھا، کیونکہ میں ہر روز آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی تھی۔‘‘

جہاں ان کے خاکوں کو پہلے صرف ان کے دوست اور خاندان والے پڑھتے تھے، وہاں اب ان کے 55 ہزار سے زائد فالور ہیں۔

نومبر میں انہوں نے دس برس پر محیط اپنے خاکوں کے کام پر مبنی کتاب ’ولز فرام ٹیونس‘ شائع کی۔

تیونس میں ’’کام، آزادی اور قومی عظمت‘‘ کے نعروں پر مبنی انقلاب نے پورے عرب خطے کو متاثر کیا تھا۔

اس انقلاب کے بعد تیونس کے جمہوری سفر کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔

مگر تیونس کے بہت سے شہری ملک کی معاشی صورت حال، حکام کی کرپشن اور غیر معیاری سرکاری سہولیات کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ اس انقلاب سے انہیں سوائے آزادی اظہار کے اور کچھ نہیں ملا۔

نادیہ کے 2018 کے ایک خاکے میں ان کی بلی ولس فرش پر لیٹی ہوئی ہے اور ایک جوتا اس کے چہرے پر رکھا ہوا ہے۔ اس پر عنوان ہے ’’انقلاب سے پہلے‘‘۔ اگلے خاکے میں ان کی ولس اسی طرح کے جوتے کے نیچے لیٹی ہوئی ہے مگر اس کے منہ سے صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے۔ اس کے عنوان میں انہوں نے لکھا کہ ’’آج، خوش قسمتی سے ہمیں اظہار کی آزادی میسر ہے۔‘‘

نادیہ خیری کے کارٹونوں کی کتاب ' ولز فرام ٹیونس،

نادیہ کا کہنا ہے کہ انہیں ہمیشہ سے خاکے بنانا پسند تھا۔ لیکن زین العابدین کے اقتدار چھوڑنے کے بعد ان کی تخلیقی صلاحیتیں جیسے یک دم باہر آ گئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آمرانہ دور میں وہ اپنے خاکوں میں سیاسی موضوعات کا اشارہ تو دیتی تھیں مگر سیاسی خاکے بالکل نہیں بناتی تھیں۔

لیکن آج وہ کسی بات سے نہیں ڈرتیں اور انقلاب کے بعد ابھرنے والے سیاسی طبقے پر دل کھول کر تنقید کرتی ہیں کیونکہ اکثر لوگوں کے لیے یہ طبقہ بھی زین العابدین کے دور کی طرح کرپٹ ہے۔

نادیہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ دنیا بھر کا میڈیا تیونس کو جمہوریت کی لیبارٹری قرار دیتا ہے مگر حقیقت زیادہ پیچیدہ ہے۔

نادیہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ انقلاب کی وجہ سے بہت سے شجر ممنوعہ موضوعات پر بات شروع ہوئی۔ ’’ہم مذہب پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔ ہم جنسی تعلق کے بارے میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ ہم جنس پرستوں اور عورتوں کے اپنے جسم پر اختیار پر بات کر سکتے ہیں۔‘‘

ایک خاکے میں ان کی بلی پوچھتی ہے کہ اس کے بھائی کو اس سے زیادہ پاکٹ منی کیوں ملتی ہے تو ماں جواب دیتی ہے کہ تاکہ آگے جو تمہارے ساتھ برتاؤ ہو گا، اس کے لیے تمہیں تیار کیا جائے۔

نادیہ اقوام متحدہ کے سابقہ سیکرٹری جنرل کوفی عنان اور فرانسیسی کارٹونسٹ پلانٹو کے پروگرام کارٹوننگ فار پیس کے بورڈ میں بھی شامل ہیں۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ ’’مزاح کے ذریعے ثقافتوں اور آزادیوں کے احترام کے لیے لڑنا‘‘۔

بین الاقوامی صحافت سے متعلق نگران ادارے آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2019 میں نئے صدر قیس سید کے انتخاب کے بعد تیونس میں میڈیا اور صحافیوں کے حالات پہلے سے بدتر ہوئے ہیں۔

نادیہ کا کہنا ہے کہ دس برس پہلے جو لڑائی انہوں نے شروع کی تھی وہ اب بھی جاری ہے۔

’’ہمیں خاموش کرنے کی کوششیں کبھی ختم نہیں ہوئیں، کبھی بھی نہیں، کیونکہ آزادی اظہار سے بہت سوں کو مسئلہ ہے۔ اس لیے بدقسمی سے آزادی اظہار کی حفاظت کے لیے یہ مزاحمت ہر روز جاری رہتی ہے۔‘‘