خیبر پختونخوا کے نگراں وزیرِ اعلیٰ اعظم خان انتقال کر گئے ہیں جس کے بعد صوبائی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق نجی اسپتال کے ترجمان نے نگراں وزیرِ اعلیٰ کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اعظم خان کو گزشتہ شب دس بجے اسپتال لایا گیا تھا جن کی طبیعت کافی ناساز تھی لیکن ہفتے کی صبح انہیں دل کا دورہ پڑا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔
ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ چار روز سے اعظم خان کو ڈائریا اور الٹی کی شکایت تھی۔ اسپتال میں ان کے تمام ٹیسٹ کیےگئے جس سے معلوم ہوا کہ انہیں ہرنیا ہے جس کے آپریشن کے بارے میں آج فیصلہ ہونا تھا۔
اعظم خان کا تعلق چارسدہ سے ہے اور انہوں نے بطور نگراں وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا 21 جنوری 2023 کو حلف اٹھایا تھا۔
اعظم خان اس سے قبل چار اکتوبر 2007 سے یکم اپریل 2008 تک خیبر پختونخوا کے وزیرِ خزانہ بھی رہ چکے ہیں جب کہ سیکریٹری پیٹرولیم اور قدرتی وسائل بھی رہے ہیں۔
اعظم خان ستمبر 1990 سے جولائی 1993 تک خیبرپختونخوا کے چیف سیکریٹری بھی رہے تھے۔
صوبائی کابینہ کا کیا اسٹیٹس ہے؟
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ نگراں وزیرِ اعلیٰ کے انتقال کے بعد نئے نگراں وزیرِ اعلیٰ کی تعیناتی کے بارے میں آئین خاموش ہے۔ لہذا اب اس عہدے کو پر کرنے کے لیے آئینی طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
نگراں صوبائی کابینہ کے اسٹیٹس سے متعلق سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ صوبائی کابینہ وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ منسلک ہوتی ہے اس لیے آئین و قانون کے مطابق وزیرِ اعلیٰ کے انتقال کے بعد کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔
مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کے انتقال کے بعد آئین و قانون کے مطابق اختیارات گورنر کو منتقل ہو گئے ہیں اور جب تک نئے وزیرِ اعلیٰ کا فیصلہ نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک اختیارات گورنر کے پاس رہیں گے۔
دوسری جانب نگراں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے گورنر، چیف سیکریٹری اور پوری صوبائی حکومت آئین کے تحت اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔
انہوں نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ خیبر پختونخوا میں کوئی بحران نہیں ہے، نئے وزیراعلیٰ کا تقرر جلد ہو گا۔ آئین کی روح بالکل واضح ہے۔
مرتضیٰ سولنگی کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے انتقال کے بعد آئین میں دیے گئے طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا۔ کسی قسم کی قیاس آرائیوں کی گنجائش نہیں۔