افغانستان کے مشرقی شہر، ننگرہار میں ہفتے کو ایک کار بم دھماکے میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے۔ حکام کے مطابق، یہ دھماکہ ایسے میں ہوا جب طالبان اور افغان مسلح افواج آمنے سامنے تھے، جب ملک کے دیگر مقامات پر فوجیوں اور شدت پسندوں نے مثالی جنگ بندی قائم رکھی۔
اس سے قبل، درجنوں غیر مسلح طالبان شدت پسند عید منانے کے لیے افغان دارلحکومت اور دیگر شہروں کے اندر داخل ہوئے۔ فوجیوں اور شدت پسند گلے ملے اور اپنے سمارٹ فون پر 'سیلفیز' بنائیں۔
تاہم، کچھ صوبوں میں باغیوں نے راکٹ لائنچر، دستی بم اور گولہ بارود اٹھا رکھا تھا۔
ننگرہار کے صوبائی گورنر کے ترجمان، عطا اللہ خوگیانی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ کار بم دھماکہ غازی امان اللہ خان کے قصبے میں ہوا، جو طورخم جلال آباد کی اہم سڑک پر واقع ہے۔ اس سے قبل، اُنھوں نے کہا تھا کہ یہ راکٹ سے فائر کیے جانے والے دستی بم کا دھماکہ تھا۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ افغانستان کو داعش اور طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے سرکشوں کا بھی سامنا ہے۔
ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ ''اس واقعے کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے''۔
اُنھوں نے بتایا کہ ''جس علاقے میں یہ دھماکہ ہوا وہ ہمارے محاذ کے قریب واقع ہے۔ عید منانے کے لیے ہمارے کچھ ارکان وہاں گئے تھے۔ ہمارے لوگوں کا جانی نقصان ہوا ہے''۔
عید کے موقعے پر معمول سے ہٹ کر، ماسوائے غیر ملکی افواج کے، طالبان نے سہ روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس کا آغاز جمعے کے دِن سے ہوا۔ یہ اُس جنگ بندی کے علاوہ ہے جس کا اعلان افغان حکومت نے کیا تھا جو بدھ تک جاری رہے گی۔
قوم سے خطاب کرتے ہوئے، صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کریں گے۔ لیکن، اُنھوں نے کسی نظام الاوقات کا اعلان نہیں کیا۔ اُنھوں نے طالبان سے کہا کہ وہ بھی جنگ بندی میں توسیع کریں، جو اتوار کو ختم ہونے والی ہے۔
یہ بات واضح نہیں آیا قوم سے خطاب کرتے وقت غنی کے علم میں بات تھی کہ ملک کے مشرق میں بم دھماکہ ہوا ہے۔