امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے حکام کے مطابق ریاست کے جنگلات میں رواں ماہ لگنے والی آگ سے کل سات ہزار عمارتیں تباہ ہوئی ہیں جب کہ بیمہ کمپنیوں کو اب تک ایک ارب ڈالر سے زائد کے دعوے موصول ہوچکے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ آگ سے تباہ ہونے والی عمارتوں اور مالی نقصان کے تخمینے میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیوں کہ اب بھی بعض علاقوں میں نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے سروے کا کام جاری ہے۔
کیلیفورنیا کے انشورنس کمشنر ڈیو جونز کے مطابق مالی نقصان کا ابتدائی تخمینہ ریاست کی آٹھ بڑی بیمہ کمپنیوں کو موصول ہونے والے دعووں کی بنیاد پر لگایا گیا ہے اور اس میں بغیر بیمے کی جائیداد کو پہنچنے والا نقصان شامل نہیں۔
جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیو جونز نے بتایا کہ مالی نقصان کے اس ابتدائی تخمینے میں ڈرامائی اضافے کا خدشہ ہے اور امکان ہے کہ یہ آگ ریاست کی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز ہونے کے علاوہ سب سے زیادہ مالی نقصان کا سبب بننے والی آگ بھی قرار پاجائے گی۔
ریاست کے دو درجن مقامات پر لگنے والی اس آگ کے نتیجے میں 42 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
آگ بجھانے کی کارروائی میں ہزاروں فائر فائٹرز اور دیگر اداروں کے اہلکار شریک تھے جنہوں نے تین ہفتوں کی محنت کے بعد اس پر قابو پایا ہے۔
بیمہ کمپنیوں کو موصول ہونے والے ابتدائی دعووں کے مطابق آگ سے 4177 گھر جزوی متاثر ہوئے جب کہ 5449 گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔
آگ سے 601 کاروباری عمارتیں، تین ہزار گاڑیاں، 150 کھیت اور زرعی آلات اور 39 کشتیاں بھی تباہ ہوئی ہیں۔
آگ بجھانے والے محکمے کی اس تصدیق کے بعد کہ آگ کو پھیلنے سے روک دیا گیا ہے، کیلیفورنیا کے گورنر جیری براؤن نے بدھ کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے حکام کو بحالی کی سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
حکم نامے کے تحت ریاست میں اپریل 2018ء تک اشیا کی قیمتیں بڑھانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جب کہ بنے بنائے گھروں اور موبائل ہومز پر عائد ریاستی فیس بھی معاف کردی گئی ہے۔
حکام کے مطابق اب بھی آگ سے متاثرہ علاقوں کے لگ بھگ 15 ہزار رہائشیوں کو ان کے گھر بار کو لوٹنے کی اجازت نہیں ملی ہے۔
گزشتہ ہفتے ان بے گھر افراد کی تعداد ایک لاکھ تھی لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ان میں سے 85 ہزار افراد اپنے علاقوں کو واپس لوٹ گئے ہیں۔