’افغانستان میں عراق کی غلطی نہیں دوہرائیں گے‘

Your browser doesn’t support HTML5

’ہم یہ بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغان حکومت کو زیادہ فعال بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اور یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ افغان سیکیورٹی اداروں کے پاس طالبان سے مقابلے کی قوت موجود ہو‘: کانگریس مین راب وٹمین

امریکی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن، کانگریس مین راب وٹمین کا کہنا ہے کہ ہم عراق میں یہ دیکھ چکے ہیں کہ جب وہاں مستحکم حکومت قائم ہوئے بغیر ہم واپس آگئے تو اس ملک کے حالات سدھارنے کے لیے ہم وہاں کی حکومت پر اثر انداز ہونے کی مؤثر اہلیت کھو بیٹھے۔ جس کے باعث، وہاں امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے اور دہشت گرد گروپوں نے سر اٹھایا۔

اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ہم اس سے سبق سیکھیں گے اور افغانستان میں اپنی مؤثر فوجی موجودگی برقرار رکھیں گے۔ ’ہم یہ بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغان حکومت کو زیادہ فعال بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اور یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ افغان سیکیورٹی اداروں کے پاس طالبان سے مقابلے کی قوت موجود ہو‘۔

امریکی ریاست ورجینیا سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین، راب وٹمین کا تعلق ری پبلیکنز پارٹی سے ہے۔ وہ ایوان نمائندگان میں 2007ءسے اپنے ڈسٹرکٹ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہیں سیکیورٹی امور پر ایک مؤثر آواز سمجھا جاتا ہے۔ آرمڈ سروسز کمیٹی کے ساتھ ساتھ وہ نیشنل ریسورسز کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں انہوں نے اپنے ڈیموکریٹ حریف کو واضح برتری کے ساتھ شکست دے کر کانگریس میں اپنی موجودہ نشست برقرار رکھی ہے۔

وائس آف امریکہ کے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی‘ میں، اردو سروس کے سربراہ فیض رحمٰن کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں، انہوں نے سیکیورٹی اور کئی دوسرے امور پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، امریکی نقطہ نظر کی وضاحت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکہ کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں مشرق وسطیٰ میں دہشت گرد گروپ ’آئی ایس آئی ایس‘ کا ابھرنا اور افغانستان سے بین الاقوامی فوجی دستوں کی واپسی کے بعد کی صورت حال ہے۔

نئی افغان حکومت کے ساتھ ملک میں کچھ امریکی فوجی دستے رکھنے کے معاہدے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کانگریس مین وٹمین کا کہنا تھا کہ ہم نے اس معاہدے کا عمومی جائزہ لیا ہے۔

’یہ آٹھ مہینے پہلے کی بات ہے جب ہم افغانستان کے دورے پر گئے تھے۔ ہم اس پر گفت و شنید بھی کرتے رہے ہیں۔ ہم نے اس معاہدے میں یہ یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے وہ فوجی جو اس ملک میں افغانوں کے تحفظ کے لیے موجود رہیں گے، انہیں وہاں اپنی فوجی کارروائیوں کی بنا پر قائم مقدمات سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اس معاہدے میں وہ تمام ضروری چیزیں موجود ہیں جن کی امریکہ کو ضرورت ہے۔ ہم جلد ہی دوبارہ افغانستان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہاں ایساف کے نئے کمانڈر سے بھی ملیں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آنے والے برسوں میں انہیں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘۔

راب وٹمین نے افغانستان کے اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں وہاں ہماری کئی افغان صدارتی امیدواروں سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ لیکن، موجودہ صدر سے بات نہیں ہوسکی تھی۔ ’میرا خیال ہے کہ ہم جب دوبارہ وہاں جائیں گے تو ان سے بھی ملاقات ہوگی۔ ان سے ملاقات میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ خود کو درپیش چیلنجز کے متعلق کی سوچ رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ افغانستان میں امریکہ کا کتنا عمل دخل دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکہ افغان تعلقات کو کس سطح پر دیکھنے کے متمنی ہیں۔‘

افغانستان کے بارے میں امریکی نقطہٴنظر کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں ایک زیادہ مستحکم حکومت دیکھنے کا خواہاں ہیں، جس کا دائرہ اثر کابل سے باہر دور تک ہو۔ ہم افغانستان فوج اور سیکیورٹی اداروں کو مزید فعال دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے محل وقوع اور کئی دوسری وجوہات کی بنا پر افغانستان ایک مختلف اور مشکل ملک ہے۔ وہاں بہت سے نسلی گروہ موجود ہیں اور دور افتادہ علاقوں تک رسائی آسان نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے، اس ملک کو مضبوط سیکیورٹی اداروں، مؤثر حکومت اور بہتر انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔

افغانستان پر سوویت قبضے اور اسے نکالنے کے لیے لڑی جانے والی لڑائیوں کا ذکر کرتے ہوئے، کانگریس مین نے کہا کہ اس وقت یہ ہوا تھا کہ روس کے جانے کے بعد ہم نے افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ جب ہم وہاں سے گئے تو بہت سے ہتھیار پیچھے رہ گئے تھے۔ تو پھر کیا ہوا تھا؟ افغان عسکری گروپوں نے انہیں ایک دوسرے کےخلاف بےدریغ استعمال کرکے، ملک میں تباہی مچائی۔ لیکن اب ہم سیکیورٹی کے سلسلے میں افغان فوج کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغان فوج اور پولیس پوری طرح مستعد اور فعال ہو۔ اور یہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہم وہاں موجود رہیں اور ایک مددگار کا کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ نسبتاً کم امریکی موجودگی کے ساتھ افغان حکومت کو تعاون فراہم کریں۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک نئے افغان صدر کے تحت حکومت کس طرح کام کرتی ہے۔۔ ہم عراق کا اپنا تجربہ افغانستان میں نہیں دوہرائیں گے اور افغان فوج اور سیکیورٹی اداروں کو اس قابل بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے کہ وہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے چیلنجز کا مؤثر جواب دے سکیں۔

کانگریس مین نے مشرق وسطیٰ میں اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس آئی ایس کے ابھرتے ہوئے خطرے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ اس وقت سے اس گروپ پر نظر رکھے ہوئے جب یہ تشکیل پا رہا تھا۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ تقریباً دو سال قبل کانگریس کے ارکان کو آئی ایس آئی ایس اور اس کے ابھرنے کے متعلق بریفنگ دے دی گئی تھی۔ اور ان خطرات کے متعلق آگاہ کردیا گیا تھا جو اس گروپ سے لاحق تھے۔ میرا خیال ہے کہ صدر کو بھی اس خطرے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ لیکن، دو سال کی اس مدت کے دوران ہم نے دنیا کے اس ابھرتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی مؤثر حکمت عملی پر کام نہیں کرسکے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت کانگریس کو جن دو اہم سوالات کا سامنا ہے وہ یہ ہیں کہ آئی ایس ایس اور دنیا بھر میں موجود انتہا پسند عناصر سے لاحق خطرے کی نوعیت اور حجم کیا ہے۔ اور آئی ایس ایس کا پیچھا کرنے، اسے محدود کرنے اور اسے تباہ کرنے کے حوالے سے ہماری اسٹریٹجی کیا ہونی چاہیے۔۔۔اور یہ کہ ہم دیگر انتہاپسندوں کے خلاف عمومی طور پر کیا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ ایک انتہا پسند گروپ کو تباہ یا کمزور کردیتے ہیں تو دوسرا گروپ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس لیے آپ کو انتہاپسند عناصر کے خلاف مجموعی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ کانگریس کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس گروپ کے خلاف مؤثر فوجی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورت حال میں صرف عراق میں آئی ایس ایس کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔

کانگریس مین وٹمین کا کہنا تھا کہ اس صورت حال کو ایک تنازع اور جنگ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اسے ایک جنگ سمجھتا ہوں اور فی الواقع یہ انتہا پسندی کے خلاف ایک جنگ ہی ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی ضرورت ہے اور کانگریس کو اس پر کام کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے آئین کے مطابق اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اگرچہ امریکی صدر کو آئین کے تحت 180 دنوں کے لیے فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن، انہیں مزید قوت کے لیے کانگریس کی منظوری بھی درکار ہوگی۔

ری پبلکنز کانگریس مین اور آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن راب وٹمین نے امریکہ کو درپیش اندرونی خطرات کا ذکر کرتے ہوئے، کہا کہ ہمیں اپنی سرحدوں کو زیادہ محفوظ بنانے اور غیر قانونی تارکین وطن کی ملک میں آمد روکنے کی ضرورت ہے۔ جس کی وجہ سے اندرون ملک امن کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

کچھ عرصے سے میکسیکو سے ملحق سرحد کے راستے بڑی تعداد میں بچوں کی غیر قانونی آمد کا سلسلہ ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔

کانگریس مین وٹمین کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اپنی سرحدی نگرانی سخت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ویزہ میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ویزے پر ملک میں داخل ہونے والوں پر نظر رکھنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ملکوں کو واپس نہیں جاتی۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ امریکہ میں موجود40 فی صد غیرقانونی تارکین وطن ایسے افراد ہیں جو کسی ویزے پر ملک میں داخل ہوئے تھے اور پھر کبھی واپس نہیں گئے۔ جب کہ دوسرے ملکوں میں ویزے پر آنے والوں کی کڑی نگرانی جاتی ہے، ان کے رہنے اور آنے جانے پر نظر رکھی جاتی ہے اور اگر وہ ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد واپس نہیں جاتے تو انہیں پکڑ کر بے دخل کردیا جاتا ہے۔ ہمیں بھی یہاں ایسا ہی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ویزہ ختم ہونے کے بعد یہاں غیر قانونی قیام نہ کریں۔ اس سے غیرقانونی تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے اور قومی سلامتی کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔