رسائی کے لنکس

ایران جوہری مذاکرات مشکل مگر کامیابی کی توقع ہے، ڈیوڈ پرائس


Cafe DC: U.S. Congressman David Price
please wait

No media source currently available

0:00 0:29:29 0:00

کانگریس مین پرائس، ہاؤس ڈیموکریسی پارٹنرشپ پراجیکٹ کے رکن ہیں، جس کے تحت امریکی دنیا کے کئی ملکوں میں جمہوری اقدار کےفروغ اور ترویج میں مدد دے رہا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے مذاکراتی عمل کے ایک رکن کانگریس مین ڈیوڈ پرائس کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ مذاکرات پر امریکی انتظامیہ کی پالیسی درست سمت آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن یہ مشکل اور دشوار مذاکرات ہیں، ان کی کامیابی کا انحصار حالات پر ہے۔ ایران اندرونی طورپر کئی حصوں میں منقسم ہے اور یہ کہنا دشوار ہے کہ حالات پر صدر حسن روحانی کی گرفت کتنی مضبوط ہے۔ اس لیے یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ مذاکرات کا نتیجہ کامیابی پر ہی منتج ہوگا۔

کانگریس مین ڈیوڈ پرائس کا کہنا تھا صدر اوباما نے ایرانی جوہری تنازع کے لیے حل کی جانب مثبت پیش رفت کی ہے۔ ہم نے پہلے سفارت کاری کو موقع دیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا کچھ ممکن ہے۔مشکل مذاکرات ، اعتماد کی کمی اور ایران کی اندرونی صورت حال کے باوجود میں کامیابی کی توقع رکھتا ہوں۔

کانگریس مین ڈیوڈ پرائس نے ان خیالات کا اظہار وی اواے کے ٹیلی ویژن شو کیفے ڈی سی میں اردو سروس کے سربراہ فیض رحمن کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔

ایڈورڈ سنوڈن کی معافی
پچھلے سال ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایک امریکی کنٹریکٹرایڈورڈ سنوڈن نے ملک سے فرار ہونے کے بعد معلومات اکھٹی کرنے کے ایک خفیہ پروگرام کا انکشافات کرکے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا اور اس کا نشانہ بننے والے کئی ملکوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ سے احتجاج بھی کیا۔ سنوڈن روس میں پناہ حاصل کرنے کے بعد وہاں رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہاہے کہ وہ وطن واپس آنا چاہتے ہیں لیکن جیل جانا نہیں چاہتے۔

کانگریس مین ڈیوڈ پرائس، ہوم لینڈ سیکیورٹی ایک سب کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ پچھلے سال اس کمیٹی نے خفیہ طور پر ڈیٹا اکھٹا کرنے سے متعلق ایک ترمیم کے خلاف ووٹ دیاتھا۔ سنوڈن کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کانگریس مین کا کہنا تھا کہ وہ وزیر خارجہ کے اس بیان سے پوری طرح متفق ہیں کہ سنوڈن نے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ امریکہ کو دنیا بھر میں بدنام کیا ہے۔

ڈیوڈ پرائس کا کہناتھا کہ ملک کے تحفظ پر ہرشخص کا اتفاق ہے۔ تاہم حکومت اس قانون کو مزید دوستانہ، شفاف اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اسے قابل ِقبول بنانے کے لیے اس پر نظر ِثانی کر رہی ہے اور بلاشبہ ایسا سنوڈن کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ لیکن جہاں تک سنوڈن کے لیے عام معافی کا معاملہ ہے تو کسی بھی شخص کو ملکی قوانین سے نافرمانی کرنےکی اجازت نہیں دی جاسکتی اور قواعد وضوابط توڑنے والے کو قانون کاسامنا کرنے پڑے گا۔

کانگریس مین پرائس نے کہا کہ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سنوڈن نے روس میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ روس اس کے بدلے میں کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ چیز بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ایڈورڈ سنوڈن کا یہ اقدام ، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے کنٹریکٹرز کو، جن کی پیشہ وارانہ اور قانونی ذمہ داری اس ملک کا تحفظ ہے، کتنے مشکل حالات میں دھکیلنے کا سبب بنا۔

ہاؤس ڈیموکریسی پارٹنر شپ پراجیکٹ
کانگریس مین پرائس، ہاؤس ڈیموکریسی پارٹنرشپ پراجیکٹ کے رکن ہیں، جس کے تحت امریکی دنیا کے کئی ملکوں میں جمہوری اقدار کےفروغ اور ترویج میں مدد دے رہاہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

اس پراجیکٹ سے اپنے تعلق کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کانگریس مین نے کہا کہ جمہوریت کو فروغ دینے سے متعلق ہماری کوششیں ماضی سے جڑ ہوئی ہیں۔ نوے کی دہائی میں مشرقی اور وسطی یورپ تبدیلیوں کے عمل سے گذررہے تھے، سوویت یونین کا طلسم بکھر کر چکا تھا اور خطے کے بہت سے ملکوں میں پارلیمانی جمہوریت آچکی تھی، لیکن اس کی حقیقت محض نمائشی تھی۔ انہیں حقیقی جمہوریت کے دھارے میں لانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس سلسلے میں ایک کمشن قائم کیا گیا، جس کا میں بھی رکن تھا۔

دس سال پہلے مجھے خیال آیا کہ یہ کام ابھی ادھورا ہے اور دنیا کے بہت سے ملک، جن میں مثکلات میں گھرے غریب ملکوں سے لے کر انڈونیشیاء، کینیا جیسے اہم ملک بھی شامل ہیں اور وہ اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہمارے جیسے ملکوں کی شراکت داری کے خواہش مند ہیں تو اس طرح ہاؤس ڈیموکریسی پارٹزشپ کا آغاز ہوا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کے دور میں میں اس کا چیئرمین تھا، اور جب ری پبلیکنز کی حکومت آئی تو میں نے اس کے ساتھ شریک چیئرمین کے طور پر کام کیا۔

اس پراجیکٹ کے تحت ہم نے 16 ملکوں کے ساتھ کافی کام کیا ہے، جن میں لائیبریا اور مشرقی تیمور جیسے چھوٹے ملکوں سے لے کر کینیا، انڈونیشیاء اور پاکستان جیسے اہم ملک بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کمیونسٹ دور کے ملکوں مثلاًمنگولیا، کرغستان، جارجیا میں اس کام کوآگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس پراجیکٹ میں شامل ہر ملک اپنے ملکی حالات کے مطابق کام کرتا ہے۔ اور یہ پراجیکٹ امریکہ اور دیگر کئی ملکوں کے ساتھ سود مند تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔

اس سوال کے جواب میں دوسرے ملکوں میں جمہوریت کے فروغ سے امریکہ کو کیا فائدہ ملتا ہے، کانگریس مین پرائس کا کہنا تھا اس کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ ان ملکوں میں ایک بہتر اور مؤ ثر پارلیمنٹ قائم ہونے سے مسائل ایوان کے اندر حل کرلیے جاتے ہیں اور سڑکوں پر افراتفری کی صورت حال پیدا نہیں ہوتی جس سے مجموعی طورپر عالمی امن کے لیے فضا سازگار ہوتی ہے اور عالمی امن امریکہ کی ترجیح ہے۔

شام کی صورت حال اور امریکہ کی پریشانی
افریقی ملکوں سے متعلق اوباما انتظامیہ کی خارجہ پالیسی پر گفتگو کرتے ہوئے کانگریس مین ڈیوڈ پرائس کا کہناتھا کہ امریکہ شام کی صورت حال پر بہت متفکر ہے۔ وہاں تیزی سے حالات بگڑ رہے ہیں اور اب امریکی انتظامیہ کے سامنے یہ سوال ہے کہ آیاحالات کو بہتر بنانے کے لیے اسے کس شکل میں جلد از جلد مداخلت کرنی چاہیے؟ کیونکہ تاخیر کی صورت میں جہادی عناصر مؤثر قوت بن کر خطے کے لیے مزید مسائل پیدا کردیں گے۔

امریکہ سپر پاور نہیں ہے
کانگریس مین ڈیوڈ پرائس کہتے ہیں کہ امریکہ درست سمت آگے بڑھ رہاہے اور مجھے اس ملک کے مستقبل پر پورا بھروسہ ہے۔ جس کا ثبوت مثبت اشاریے ہیں۔ ہم موجودہ ترقی یافتہ زمانے کے مشکل ترین عہد سے باہر نکل رہے ہیں، جس کی مثالیں ویت نام اور عراق کی جنگیں ہیں، جن کے پوری دنیا پر اثرات مرتب ہوئے۔ ہمارے ملک نے جن دوسری چیزوں کے لیے کام ہے وہ ہے اپنی روایات پر ثابت قدم رہنا، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کا تحفظ اور ان کے فروغ کے لیے بیرونی دنیا کے ساتھ مل کر کام کرنا اور اس تصور کو تقویت دینا کہ ہم سپر پاور نہیں ہیں، اس دنیا میں کوئی واحد غالب طاقت نہیں ہے اور وہ دور ختم ہو چکا ہے۔ آج کی دنیا میں اہمیت اختلاف رائے کے احترام، دوسروں کی خود مختاری کے احترام اور اپنے حدود قیود کے ادارک کی ہے۔

کانگریس مین ڈیوڈ پرائس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا۔ انہوں نے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ اسی دوران انہوں نے نارتھ کیرولائنا کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 1986 کے انتخابات میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے کانگریس کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے شعبے سے وابستگی نے انہیں عملی سیاست میں آنے لیے تیار کیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ سیاسی نظام کس طرح کام کرتا ہے۔
XS
SM
MD
LG