صحافی تنظیموں کا 'جرنلسٹس پروٹیکشن بل' سے متعلق ابہام دُور کرنے کا مطالبہ

فائل فوٹو

پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے وفاقی کابینہ کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے بل کی منظوری کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ تاہم صحافی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس قانونی مسودہ کے سامنے آنے والے بعض نکات مبہم ہیں جنہیں واضح کیا جانا ضروری ہے۔

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے گزشتہ ہفتے وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے تیار کردہ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے تحفظ کے بل کی منظوری دی ہے جسے پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں قانون سازی کے لیے پیش کیا جائے گا۔

بل کے مطابق صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو اپنے ذرائع خفیہ رکھنے کا حق حاصل ہو گا جب کہ صحافیوں کے کام میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

اس قانونی بل میں صحافیوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ حقوق کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ اس بل کا مسودہ تاحال عام نہیں کیا گیا۔

ملک میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ بل کی دستیاب تفصیلات کو دیکھا جائے تو حکومت صحافیوں کے تحفظ سے زیادہ ان کی فلاح و بہبود اور تربیت کی بات کرتی ہے جس سے یہ تشویش پیدا ہوتی ہے کہ کہیں ان کے تحفظ کا مسئلہ نظر انداز تو نہیں کر دیا گیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

بلوچستان میں خبر بنانے والوں کو خود خبر بن جانے کا ڈر

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے تجویز کردہ کمیشن کے اختیارات محدود رکھے گئے ہیں اور اس میں صرف حکومت کو سفارش کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اُن کے بقول یہ اختیار کمیشن کے پاس ہونا چاہیے۔

'پی ایف یو جے' کے صدر کہتے ہیں کہ بل میں یہ تو کہا گیا ہے کہ صحافی متنازع علاقوں میں کام کر سکیں گے لیکن یہ واضح نہیں ہے کیا گیا کہ اگر حکومت ایسے علاقوں میں جانے پر پابندی لگا دیتی ہے تو اس صورت میں کیا ہو گا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ بل میں رہ جانے والے نکات اور خامیوں کو پارلیمنٹ میں دور کر دیا جائے گا تاکہ جامع قانون کی منظوری ہو سکے۔

خیال رہے کہ صحافیوں کے تحفظ کا قانون طویل عرصہ سے تاخیر کا شکار تھا جو کہ اب حتمی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔

صحافیوں کے حقوق کی عالمی تنظیم 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' کے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک کہتے ہیں کہ اس بل کی منظوری سے امید کی جاسکتی ہے کہ صحافیوں پر حملوں اور کام میں رکاوٹ کا بڑھتا رُحجان کم ہو گا اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر تشدد، قتل اور ہراساں کیے جانے کے واقعات پر بقول ان کے ریاست نے چشم پوشی کی جس کی وجہ سے صحافی خود ساختہ سنسر شپ پر مجبور ہو گئے۔

اقبال خٹک کہتے ہیں کہ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس بل کو وفاقی کابینہ سے منظوری کے لیے تین سال کا عرصہ لگ گیا اور اب پارلیمنٹ سے منظوری میں نہ جانے مزید کتنا وقت درکار ہو گا۔

انہوں نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ آزاد صحافت حکومت و اپوزیشن دونوں کے مفاد میں ہے لہذا اس بل کو پارلیمنٹ میں جامع بحث کے بعد منظور کیا جائے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'امید ہے ابصار عالم پر حملہ کرنے والے نامعلوم نہیں رہیں گے'

'جرنلسٹس پروٹیکشن بل' میں مزید کیا ہے؟

وفاقی کابینہ کے منظور کردہ بل کے مطابق صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن قائم کیا جائے گا جو کہ صحافتی تنظیموں، وزارتِ اطلاعات اور انسانی حقوق کے نمائندگان پر مشتمل ہو گا۔

یہ بل کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ صحافیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں، دھمکی، قتل، بلا وجہ گرفتاری، نظر بندی اور ہراسانی کی شکایات کی تحقیقات کرے۔

صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے اندر متنازع متاثرہ علاقوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی کو بغیر کسی خطرے، دھمکی، ہراسانی یا تشدد کا نشانہ بننے کے خوف کے بغیر انجام دے سکیں۔

بل کے مسودے کے مطابق حکومت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو کسی بھی شخص، ادارے (سرکاری یا نجی) یا اتھارٹی کے ہاتھوں ہر طرح کی زیادتی، تشدد، استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرے گی۔

اس قانون سازی کے ذریعے جرنلسٹس ویلفیئر اسکیم کا آغاز کیا جائے گا جس کے تحت میڈیا مالکان، صحافی اور میڈیا کارکنان کے لیے ایک جامع حفاظتی پالیسی اور قواعد کو مرتب کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان صحافت کے اعتبار سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان کو صحافت کے لیے خطرناک ملک قرار دیے جانے کے ساتھ ورلڈ پریس فریڈم کی فہرست میں 180 ممالک میں سے 145 نمبر پر رکھا گیا ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے وائٹ پیپر کے مطابق پاکستان صحافیوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے۔

صحافیوں کے حقوق کی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' کے مطابق 1992 سے 2020 تک کم از کم 70 صحافیوں کو پاکستان میں قتل کیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں کام کرنے والے صحافیوں کو ڈرانے، دھمکانے، ہراساں کیے جانے اور انہیں جبر کا نشانہ بنانے کی شکایات بھی عام ہیں۔

البتہ، حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو کام کرنے کی مکمل آزادی ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان بھی متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں پاکستان میں میڈیا جتنا آج آزاد ہے ماضی میں اسے اتنی آزادی کبھی بھی حاصل نہیں رہی۔