پاکستان کے صوبۂ پنجاب میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی 20نشستوں پر بیک وقت ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ 17 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے لیے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنی حکمتِ عملی بناتی نظر آ رہی ہیں۔
صوبے کے 14 اضلاع میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اصل مقابلہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ماضی کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے درمیان متوقع ہے۔ مبصرین کے خیال میں ضمنی انتخابات عام الیکشن کی طرح ہوں گے اور اِس میں کامیابی یا ناکامی کی صورت میں اِس کا اثر 2023 میں ہونے والے عام انتخابات پر پڑے گا۔
مرکز میں حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کے ساتھ ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ق)پی ٹی آئی کا ساتھ دیتی نظر آ رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام حلقوں میں اپنے امیدواروں کو مسلم لیگ (ن) کے حق میں دست بردار کرا لیا ہے۔ بدھ کے روز دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے لاہور میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران مل کر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تھا۔
بیس نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات اس بات کا بھی فیصلہ کریں گے حمزہ شہباز بطور وزیراعلٰی پنجاب رہتے ہیں یا ایک مرتبہ پھر سے پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کی نشست پر بیٹھیں گے۔
SEE ALSO: پنجاب کابینہ: 'مسلم لیگ (ن) اہم وزارتیں پیپلزپارٹی کو نہیں دینا چاہتی'واضح رہے کہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 20 ارکان کو اُن کی نشستوں سے برخاست کر دیا تھا۔ جس کے بعد اب وہ حکمران اتحاد کی حمایت سے میدان میں اتر رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نشتیں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہبازکا سیاسی قد بڑھ جائے گا، بصورت دیگر بطور وزیراعلٰی یہ اُن کی بڑی سیاسی شکست ہو گی۔
حمزہ شہباز کے وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے سے اب تک انہیں کئی مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں۔ پہلے اُن کی حلف برداری کا مسئلہ، پھر اتحادی جماعتوں کے ساتھ کابینہ کی تشکیل، بجٹ کی منظوری اور اب 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات۔
پنجاب کے 14 اضلاع میں ضمنی انتخابات کی تیاریاں
پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے انتخابات لاہور، راولپنڈی، ملتان، لودھراں، فیصل آباد، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، لیہ، ساہیوال، خوشاب، بھکر، جھنگ، شیخوپورہ اور بہاول نگر میں ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ضمنی انتخابات کے لیے 307 امیدوارں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن کی حتمی فہرست جمعے کو جاری کی جائے گی۔
خیال رہے 2018 کے عام انتخابات میں مذکورہ 20 میں سے 10 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ جو بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے۔ اِس بار بھی متعدد امیدوار آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ وہ کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے کے خواہش مند بھی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے جن لوگوں کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے ہیں اُن میں سے تقریباً نصف کا تعلق ترین گروپ سے ہے۔
SEE ALSO: پنجاب میں پے در پے سیاسی بحران: 'اسمبلی ایک دوسرے کو ہٹانے، گرانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے'حکمران اتحاد کی حکمت عملی کے مطابق انہی امیدواروں یا ان کے رشتہ داروں کو ٹکٹیں جاری کی گئیں جو 2018میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے۔ جن نشستوں پر انتخاب ہو رہا ہے وہاں سے کامیاب امیدواروں کا تعلق سابق حکمران جماعت تحریک انصاف سے تھا، مگر اب وہ پی ٹی آئی کے مد مقابل ہوں گے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نظریاتی کارکنوں اور جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے (الیکٹیبلز) کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں دونوں جانب سے بھرپور انتخانی مہم چلائی جا رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی جنرل سیکریٹری مسرت جمشید چیمہ کے خیال میں ان کی جماعت کا بیانیہ عوام میں مقبول ہے جس کی وجہ سے لوگ ان کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ماضی کے سیاسی حالات اور معاشی حالات آج کے حالات سے مختلف ہیں۔ اُن کی حکومت کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے تھے جن میں صحت کارڈ پہلے نمبر پر تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے بارے یہ کہا جاتا تھا کہ اُس نے بڑی مہنگائی کر دی ہے لیکن موجودہ حکومت نے تو مہنگائی کے سارے ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں۔
'حکمراں اتحاد کو عوام ووٹ نہیں دیں گے'
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے جن اراکین کو ڈی سیٹ کیا تھا ان کی اکثریت اب مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ اُنہی میں سے ایک نذیر چوہان ہیں جو لاہور سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے اور دیگر اُمیدواروں نے ملک میں تبدیلی کے لیے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، لیکن وہ مایوس ہو گئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں نے اپنی لڑائیاں اور دوسروں کو چور چور کہہ کر وقت ضائع کیا، پی ٹی آئی کو ساڑھے تین سال کا وقت ملا تھا، لیکن رہنما پریس کانفرنس ہی کرتے رہے اور اپنا زیادہ زور میڈیا اور سوشل میڈیا پر لگاتے رہے۔
موجودہ حکومت کے ابتدائی ڈھائی ماہ کے دوران ہونے والی مہنگائی پر نذیر چوہان کہتے ہیں پاکستان میں مہنگائی اچانک سے نہیں آئی بلکہ یہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوئی ہے۔
تاہم پی ٹی آئی پنجاب کی جنرل سیکریٹری مسرت چیمہ کہتی ہیں کہ حکمران اتحاد کو مہنگائی، سازش، مداخلت اور اپنی کرپشن بچانے کے لیے بنائے گئے قوانین کی وجہ سےعوام اُنہیں ووٹ نہیں دیں گے۔
ان کے بقول، " حکومت میں ہوتے ہوئے شفاف الیکشن کرانا حکومت کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب عمران خان وزیراعظم تھے تو اُنہوں نے صاف شفاف انتخاب کرائے۔ جس کے باعث حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اُن کی جماعت ضمنی انتخاب ہار جاتی تھی۔