اچھی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اچھے نمبر اور اچھی ملازمت کے لیے ایک اچھی ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے معمول سے زیادہ محنت اور کوشش کرنا پڑتی ہے۔ دنیا بھر سے نوجوان اچھے مستقبل کی خاطر امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں جانے اور وہاں اسکالرشپ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ لیکن اس تصویر کا ایک پہلو اور بھی ہے ۔ ضروری نہیں کہ ڈگری رکھنے والے کے پاس اپنے شعبے کا وہ علم بھی ہو جس کی ضمانت اس کی ڈگری دیتی ہے۔
ممکن ہے کہ سول انجنیئرنگ کی ڈگری رکھنے والے کو تعمیرات کی بنیادی چیزوں کا ہی علم نہ ہو اور مارکیٹنگ کی سند رکھنے والے کو مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کے اسباب کا ادراک ہی نہ ہو۔
امریکہ اور کئی دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں کچھ عرصے سے یہ شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ جاب مارکیٹ میں ایسے افراد داخل ہو چکے ہیں، جن کے پاس اپنی ڈگری کی مطلوبہ مہارت نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہ آن لائن سائٹس ہیں جو معاوضے پر طالب علموں کو ان کی ضرورت کے مطابق پیپر، اور مقالے فراہم کرتی ہیں۔
امریکہ میں انٹرنیٹ پر essay shark، fab editors، pay for essay ,CustomWriting.com اور ایسی کئی ویب سائٹس مل جاتی ہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان کے پاس پیپر لکھنے کے لیے ماہرین کی ایک بڑی ٹیم موجود ہے۔
ایلی سن تھامس واشنگٹن میں قائم امیریکن یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے انفارمیشن لٹریسی پر ریسرچ کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کالج اور یونیورسٹیوں کے اسٹودنٹس کو ان کی کلاسز کے لئے مضامین اور مقالے فراہم کرنے والی انڈسٹری مجموعی طور پر پورے نظام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ لوگ یونیورسٹیوں پر بھروسا اور اعتماد کرتے ہیں۔ یونیورسٹی یہ تصدیق کرتی ہے کہ وہ جس شخص کو سند دے رہی ہے، وہ اس کام کی اہلیت اور مہارت رکھتا ہے۔
لیکن جب کام کی جگہوں پر تعیناتی کے بعد معلوم ہو کہ وہ اس کام کی اہلیت نہیں رکھتے، تو اس شعبے کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ ڈگری کے بارے میں بھی سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
تھامس کہتی ہیں کہ عموماً یہ وہ طالب علم ہوتے ہیں جن کی انگریزی میں مہارت اچھی نہیں ہوتی اور انہیں پیپر لکھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ویب سائٹس پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں۔
سکالرشپ حاصل کرنے والے ایک طالب علم نیرن نے بتایا کہ اس کا جی پی اے گریڈ 3.75 تھا، مگر کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے انہیں پیپر لکھنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک آن لائن کمپنی سے اپنے ایک سمیٹر کا مقالہ لکھوایا ۔
نیرن کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی چوری ہے۔ اس تجربے کے بعد اسے اپنی تعلیمی مہارت برقرار رکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑی۔
اسٹوڈنٹس کے لیے پیپر لکھنے والے ماہرین کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں وکٹر بھی شامل ہیں۔ وہ مستند شاعر ہیں اور ان کی شاعری شائع ہوتی ہے، لیکن انہیں اپنی کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں مالی دشواریوں کا سامنا تھا۔ انہوں نے طالب علموں کے لیے پیپر لکھنے کا فیصلہ کیا اور اپنی ایک ویب سائٹ بنائی۔ ایک زمانے میں وہ ایک ہفتے میں دس تک پیپر لکھ کر دیتے رہے۔ لیکن اب انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ رقم کے لیے پیپر نہیں لکھتے بلکہ تعلیمی استعداد بڑھانے میں اسٹوڈنٹس کی مدد کرتے ہیں۔
طالب علموں کے لیے پیپر لکھنے والی ایک ویب سائٹ Edusson کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ماہرین کی ایک ٹیم موجود ہے۔ ویب سائٹ پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنے شعبوں کے ماہر ان کے لیے کام کر کے 1500 سے 2000 ڈالر ماہانہ کی اضافی آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر پیپر اور شعبے کی نوعیت کے مطابق 75 سے 450 ڈالر میں پیپر تیار کر کے دے دیا جاتا ہے۔
امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر جسٹین زیپن کہتے ہیں کہ کہیں اور سے لکھوائے گئے پیپر چوری کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ چوری پکڑنا بہت آسان ہے۔ آپ طالب علم کے پیپر کا موازنہ اس کے کلاس ورک سے کریں تو زبان اور تحریر کا انداز سب کچھ صاف بتا دے گا۔
زیپن کہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں یہ چوری پکڑنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہیں اور اس مقصد کے لیے کئی بیرونی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں سین ڈیاگو میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے 2017-2018 کے تعلیمی سال کی چھان بین کے دوران 845 ایسے اسٹوڈنٹس کی نشان دہی کی ہے جنہوں نے پیپرز اور مقالے خود نہیں لکھے تھے۔