شمالی کوریا اور برما کے فوجی تعلقات

(فائل فوٹو)

جاپان نے ان اطلاعات کی تصدیق کی کہ گذشتہ سال کسٹم کے عہدے داروں نے المونیم الائے کی سلاخوں کی ایک کھیپ پکڑی تھی جس کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ شمالی کوریا سے آ رہی تھی اور جسے نیوکلیئر سینٹریفیوجز بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
جاپان کے اس اعتراف کے بعد کہ اس نے ایک بحری جہاز سے ایسا سامان بر آمد کیا ہے جسے نیوکلیئر پروگرام میں استعمال کیا جا سکتا ہے، شمالی کوریا کے ساتھ برما کے فوجی تعلقات کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

مارچ میں برما کا دورہ کرنے والے ایک امریکی خصوصی مشیر نے کہا کہ اگر برما چاہتا ہے کہ جن پابندیوں کو عارضی طور سے ختم کیا گیا ہے، وہ پوری طرح اٹھا لی جائیں، تو اسے دنیا کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ اس نے شمالی کوریا کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات ختم کر دیے ہیں۔

گذشتہ پیر کو جاپان نے ان اطلاعات کی تصدیق کی کہ گذشتہ سال کسٹم کے عہدے داروں نے المونیم الائے کی سلاخوں کی ایک کھیپ پکڑی تھی جس کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ شمالی کوریا سے آ رہی تھی اور جسے نیوکلیئر سینٹریفیوجز بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

جاپانی میڈیا نے اطلاع دی کہ یہ سامان برما جا رہا تھا لیکن اسے امریکہ سے اشارہ ملنے پر، اگست میں ایک بحری جہاز سے جس پر سنگا پور کا پرچم لگا ہوا تھا، راستے میں ہی روک لیا گیا ۔

اس انکشاف سے یہ تشویش پیدا ہوئی کہ اہم سیاسی اصلاحات کے باوجود، ہو سکتا ہے کہ برما خفیہ طور پر نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام پر کام کر رہا ہو، اور شاید شمالی کوریا پر اقوامِ متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہا ہو۔

مغربی ملکوں نے برما پر سے بیشتر سفارتی اور اقتصادی پابندیاں معطل کر دی ہیں ۔ لیکن گذشتہ ہفتے، برما کے بارے میں امریکہ کے خصوصی مشیر پیٹرک مرفی نے کہا کہ جب تک مزید سیاسی اور انسانی حقوق کی اصلاحات نہیں کی جاتیں، اور شمالی کوریا سے تعلقات واضح طور پر ختم نہیں کیے جاتے، یہ پابندیاں پوری طرح نہیں اٹھائی جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں پوری امید ہے کہ ہم یہ اعلان کر سکیں گے یا اس اعلان کو قبول کر سکیں گے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعلق ختم ہو گیا ہے ۔ اور یہاں حکام کے ساتھ اس مسئلے پر مفید مذاکرات ہوئےہیں ۔ میرے خیال میں شمالی کوریا کے بارے میں جو بین الاقوامی تشویش ہے اسے اچھی طرح سمجھ لیا گیا ہے۔‘‘

برما کی فوجی حکومت ایک عرصے سے شمالی کوریا سے ہتھیار اور فوجی سازو سامان خریدتی رہی ہے ۔


دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں 1983 میں اس وقت خلل پڑا تھا جب شمالی کوریا کے ایجنٹوں نے رنگون میں ، دورے پر آئے ہوئے جنوبی کوریا کے صدر کے وفد پر بموں سے حملہ کیا تھا اور 17 افراد کو ہلاک کر دیا تھا ۔

لیکن دونوں نا پسندیدہ اور فوج کے زیرِ تسلط مملکتوں نے چند ہی سال بعد خفیہ طور پر تعلقات پھر بحال کر لیے۔

2010ء میں، جب برما میں جمہوری تبدیلیوں کی ابتدا ہو رہی تھی، تو منحرف ہوجانے والے ایک شخص نے الزام لگایا کہ فوج نیوکلیئر ہتھیاروں کا ایک خفیہ پروگرام چلا رہی ہے ۔ تجزیہ کاروں کو شبہ ہوا کہ شمالی کوریا اس پروگرام میں مدد دے رہا ہے۔

لاس الاموس اور اقوامِ متحدہ کی نیوکلیئر ایجنسی، آئی اے ای اے کے ایک سابق نیوکلیئر انجینیئر رابرٹ کیلی نے ان الزامات کی چھان بین کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام کے آثار تو موجود تھے، لیکن ان میں شمالی کوریا کے ملوث ہونے کی کوئی علامت نظر نہیں آئی ۔ ان کے مطابق ’’مجھے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ شمالی کوریا اس نیوکلیئر پروگرام میں ملوث ہے۔ اور میرے خیال میں آپ کو ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جس کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہو۔ اگر آپ خاص طور سے امریکی حکومت کے بیانات کو دیکھیں، جیسا کہ ہم نے برما کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں دیکھا ہے، تو انھوں نے بڑی احتیاط سے بات چیت کو نیوکلیئر معاملات سے ہٹا کر مزائلوں اور روایتی ہتھیاروں تک محدود کر دیا ہے۔‘‘

مشتبہ المونیم کے سلسلے میں خبریں نومبر میں سامنے آئیں جب امریکہ کے صدر براک اوباما برما کا تاریخی دورہ کرنے والے تھے ۔ وہ پہلے امریکی صدر تھے جو اپنے عہدِ صدارت میں برما کا دورہ کر رہے تھے۔

اس سال کے شروع میں، صدر تھین سین نے وعدہ کیا تھا کہ برما پیانگ یانگ سے فوجی سازو سامان خریدنا بند کردے گا، اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ ایک اور سمجھوتے پر دستخط کرے گا جس کے تحت بین الاقوامی معائنے کیے جا سکیں گے۔

برما کی پارلیمینٹ نے ایسے اقدامات کی اب تک منظوری نہیں دی ہے جن کے تحت معائنوں کی اجازت دی جا سکے ۔ سرکاری عہدے دار بھی مسلسل انکار کرتے رہتےہیں کہ وہ کوئی نیوکلیئر پروگرام چلا رہے ہیں۔

نیوکلیئر ماہر کیلی کہتے ہیں کہ اگرچہ برما کو نیوکلیئر میٹیریئلز کی تیاری میں کئی عشرے لگ سکتے ہیں، لیکن اسے ہر بات صاف طور سے بتا دینی چاہیئے اور معائنوں کی اجازت دے دینی چاہیئے ۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں نے کھلے عام جو کچھ دیکھا ہے وہ اسکا بالکل الٹ ہے۔ ہم معائنوں کو قبول نہیں کریں گے کیوں کہ ہمارے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان کا رویہ یہ ہوگا کہ ہمارے پاس کوئی نیوکلیئر سامان نہیں ہے، کوئی نیوکلیئر تنصیبات نہیں ہیں، جو آپ کی قانونی تعریف کے دائرے میں آتی ہوں ۔ اور چونکہ ہمارے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے، تو ہمارے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں ہم آپ کو لے جائیں، یا آپ کو دکھائیں ۔‘‘

وائس آف امریکہ نے برما کے صدارتی ترجمان سے انٹرویو کی درخواست کی تا کہ ان الزامات کا جواب دیا جا سکے، لیکن وہ تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے ۔