برما میں آزادی صحافت اب بھی محدود ہے، رپورٹ

برما میں آزادی صحافت اب بھی محدود ہے، رپورٹ

ایک نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ برما کی حکومت کی جانب سے اصلاحات کے وعدوں کے باوجود ملک میں اب بھی صحافت پر "امتیازی، کڑی اور سخت نوعیت" کی پابندیاں موجود ہیں۔

صحافیوں کے حقوق کی عالمی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برما میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران نجی شعبہ کی ملکیت اور ادارت میں شائع ہونے والے اخبارات و جرائد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تاہم انہیں سینسر کی کڑی پابندیوں کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نجی شعبہ کی مطبوعات کو اکثر اوقات سرکاری طور پر تیار کی گئی خبریں اور تبصرے شائع کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جن میں حکومت اور اس کی پالیسیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہوتا ہے۔

دریں اثناء ایک اور صحافتی تنظیم 'رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز' نے منگل کو تصدیق کی ہے کہ برمی حکومت نے 'وائس آف امریکہ' اور 'ڈیموکریٹک وائس آف برما' سمیت کئی بین الاقوامی نیوز ویب سائٹس تک رسائی بحال کردی ہے۔

تاہم 'سی پی جے' کی رپورٹ میں برما میں آزادی صحافت کی صورتِ حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں دو صحافیوں کو طویل قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں جبکہ لگ بھگ ایک درجن سے زائد مطبوعات کی اشاعت کو معطلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

رپورٹ میں ذرائع ابلاغ کے نجی اداروں سے وابستہ رپورٹرز کا یہ بیان بھی موجود ہے جس کے مطابق انہیں ملک کی نئی پارلیمان کے رواں برس مارچ میں ہونےو الے افتتاحی اجلاس کی کوریج کے لیے عمارت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برمی حکام نے لگ بھگ 500 سے زائد انٹرنیٹ کیفے مالکان کو مجبور کیا کہ وہ کیفیز کی حدود میں خفیہ کیمرے اور دیگر آلات نصب کریں جن کے ذریعے وہاں آنے والے افراد کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کی جاسکے۔

واضح رہے کہ برما میں موجود بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے خفیہ نمائندے اپنے اداروں کو خبریں، تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے کے لیے عموماً ان کیفیز کا استعمال کرتے ہیں۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی رپورٹ برما میں موجود ان صحافیوں سے انٹرویوز کی بنیاد پر مدون کی ہے جو وہاں رہ کر بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ادھر 'رپورٹر وِ دآؤٹ بارڈرز' کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کیفیز پر عائد کی گئی نئی پابندیوں کے باوجود حکام نے وائس آف امریکہ سمیت بی بی سی، رائٹرز، ریڈیو فری ایشیاء اور بیرونِ ملک سے شائع ہونے والے برمی اخبار 'اراودی' کی ویب سائٹس تک رسائی بحال کردی ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ چونکہ حکومت 'ڈیموکریٹک وائس آف برما' اور 'اراودی' تک قارئین کی رسائی بحال کرچکی ہے لہذا اسے اپنی قید میں موجود ان اداروں سے وابستہ صحافیوں کوبھی رہا کردینا چاہیے۔