برما: 1000 سے زائد مسلمانوں نے آشرم میں پناہ لے لی

بودھوں کی اِس خانقاہ پر فوجی پہرہ جاری ہے، اورخبروں میں بتایا گیا ہے کہ اِس شمالی شہر میں اب حالات قدرے بہتر ہیں، حالانکہ بلوؤں کے نتیجے میں عمارات کو لگنے والی آگ سے اب بھی دھواں اُٹھ رہا ہے
میانمار میں ہونے والےتازہ فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں جمعرات کے روز 1000سے زیادہ مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر لاشیو نامی شہر میں بودھوں کے آشرم میں پناہ لے لی ہے۔

خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اس آشرم پر فوجی پہرہ دے رہے ہیں اور اس شمالی شہر میں اب حالات قدرے بہتر ہیں، حالانکہ بلوؤں میں ملوث بودھوں کی طرف سےعمارات کو لگائی جانے والی آگ سے اب بھی دھواں اُٹھ رہا ہے۔


ایسو سی ایٹڈ پریس کے نمائندے، ٹوڈ پِٹ مین نے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ فوج خوف میں گھرے اِن مسلمان خاندانوں کو ٹرکوں میں بٹھا کر لاشیو کے مضافات کی طرف لےآئی، جہاں راستے میں ایک ہی روز قبل ہونے والی تخریب کاری کےمناظر عام تھے، جن میں الٹی ہوئی موٹر گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں پڑی ہوئی تھیں، جب کہ کئی جگہ زمین پرخون کے نشان تھے۔
انسٹھ برس کی خین تھان نے بتایا کہ ڈر اِس بات کا تھا کہ حالات قابو سے باہر نکل جائیں گے، اس لیے ہم نے فوجیوں سے مدد مانگی۔

اُن کے الفاظ میں، ’وہ ہماری مدد کو آئے اور جمعرات کی صبح بودھوں کی خانقاہ کی طرف لے آئے‘۔

اِن میں، خین تھان کے چار بچے اور سامان کے تھیلے بھی شامل تھے۔

اُن کا خاندان سینکڑوں مسلمانوں میں سے ایک تھا۔ خین کے بقول، ’ہم اس لیے بھاگ نکلے کہ ہمیں حملوں کا ڈر تھا‘۔


اس ہفتے لاشیو میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فسادات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ گذشتہ برس رکھائن میں شروع ہونے والے فسادات ملک بھر میں کس طرح پھیل گئے، او ر یہ بے چینی مارچ میں مختیلہ کے وسطی شہر تک پہنچ چکی تھی۔

صدر تھیان سین کی حکومت کو تشدد کی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر سخت تنقید کا سامنا ہے، جس نے دو سال قبل ہی اقتدار سنبھالا ہے۔


جمعرات کے دِٕن لاشیو کے شہر میں بودھ راہبوں نے پناہ لینے والے افراد کے لیے کھانے کا بندوبست کیا، جو آشرم کے احاطے کے اندر عمارات میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔