امن مذاکرات کے ثالث کاروں کا کہنا ہے کہ برما کی حکومت کے مذاکرات کار اور نسلی مون علیحدگی پسند کئی عشروں سے جاری لڑائی ختم کرنے کے لیے ایک ابتدائی معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔
فائر بندی کا یہ معاہدہ ، برما کی نئی حکومت ، جس میں سویلین کی تعداد برائے نام ہے، اور باغیوں کے گیارہ نسلی گروپوں کے درمیان اس نوعیت کا ساتواں معاہدہ ہے۔
نئی حکومت قائم ہونے سے قبل ملک پر کئی عشروں تک فوج نے حکمرانی کی تھی اور پھر انہوں نے پچھلے قومی سطح پر انتخابات کی اجازت دے کر ایک سویلین حکومت کے قیام کی اجازت دی، جس میں اکثریت یا تو فوجیوں کی ہے یا ان ارکان کی ہے جنہیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔
نیومون سٹیٹ پارٹی کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کی برماسروس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس معاہدے میں علیحدگی پسندوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی تحریک کو ہتھیاروں سے پاک رکھیں اور رابطہ کار عہدے دار تعینات کریں۔ توقع کی جاری ہے کہ بدھ کے روز ریاست مون کے دارالحکومت میں طے پانے والے معاہدے اس ماہ کے آخر میں ایک سرکاری دستاویز کی شکل مل جائے گی۔
مون باغی بھی دوسرے کئی بڑے نسلی باغی گروپوں کی طرح مشرقی اور جنوبی برما میں خودمختاری کے لیے 1940ء سے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔