حکومت پر تنقید کرنے والے گریڈ 21 کے افسر کے خلاف کیا تحقیقات ہو سکتی ہیں؟

فائل فوٹو

حکومتِ پاکستان نے کابینہ ڈویژن میں تعینات گریڈ 21 کے افسر کے خلاف حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو حکم دیا ہے کہ وہ افسر کے خلاف تحقیقات کرے۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سرکاری افسر کا کنڈکٹ دیکھنا ہو گا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک خط کے مطابق گریڈ 21 کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری حماد شمیمی نے اپنی فیس بک پوسٹ میں حکومت پر طنز کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "پاکستان تحریک انصاف اور طالبان میں ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ دونوں حکومت ملنے کے بعد سوچ رہے ہیں کہ اسے چلانا کیسے ہے۔"

حماد شمیمی کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف اور طالبان کی امیدوں کا مرکز بھی آبپارہ ہے۔

یاد رہے کہ آبپارہ اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس کے ایک علاقے کا نام ہے جس کے بالکل قریب پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا ہیڈکوارٹر واقع ہے۔

پاکستان میں عام گفتگو کے دوران اس حساس ادارے کا نام لینے کے بجائے اکثر اسے آبپارہ سے یاد کیا جاتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نوٹی فکیشن کے مطابق گریڈ 21 کے افسر حماد شمیمی نے سول سرونٹ رولز 2020 کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کے خلاف ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ثنااللہ عباسی معاملے کی تحقیقات کریں گے۔

SEE ALSO: ڈسکہ ضمنی انتخاب: پولیس، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے افسران دھاندلی کے ذمے دار قرار

ثنا اللہ عباسی کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری رولز 9 ون سی کے تحت سول سرونٹ رول 15 کے مطابق تحقیقات کریں گے۔ یہ انکوائری سرکاری ملازمین سے متعلق رول نمبر 10 اور 12 کے مطابق کی جائے گی جو 60 روز کے اندر مکمل کی جائے گی۔ اس مدت میں حکام کی اجازت سے اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ انکوائری مکمل ہونے کے سات روز بعد رپورٹ پیش کریں جس میں اس الزام کا ثابت ہونا یا نہ ہونا واضح طور پر بتایا جائے کہ آیا مذکورہ افسر رولز کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ انکوائری افسر کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس حوالے سے سفارشات بھی دیں کہ افسر کے خلاف الزام ثابت ہونے کی صورت میں کیا سزا دی جاسکتی ہے۔

اس بارے میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سابق ڈائریکٹر عمار جعفری کہتے ہیں حکومتی نوٹی فکیشن کے مطابق جو رولز لکھے گئے ہیں وہ درست ہیں۔ ان کے بقول کوئی بھی سرکاری افسر ایسا بیان نہیں دے سکتا جس سے حکومت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔

'انکوائری افسر پر منحصر ہے کہ وہ کیا تحقیقات کرتا ہے'

عمار جعفری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے سرکاری افسر سوشل میڈیا معمول کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کا حکومت مخالف بیان دینا چاہتا ہے تو اسے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس بارے میں واضح طور پر اپنی ذاتی رائے کو سرکاری خیالات سے الگ ظاہر کرنا ہوگا لیکن اس میں بھی مشکل ہے کہ بعض سرکاری افسران کے ذاتی خیالات کو بھی سرکاری رائے ہی سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انکوائری افسر پر منحصر ہے کہ وہ تحقیقات کے بعد کیا فیصلہ کرتا ہے۔

اس انکوائری کے بعد حماد شمیمی کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے؟ اس سوال پر سینئر وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں اس معاملے میں افسر کے کنڈکٹ کو دیکھنا ضروری ہے۔ اگر افسر سے ماضی میں اس طرح کی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی تو اسے وارننگ دے کر معاملہ ختم کیا جاسکتا ہے۔تاہم اس بارے میں انکوائری افسر پر منحصر ہے کہ وہ حالات کو کس طرح دیکھتا ہے۔

حکومت کی طرف سے رواں برس 25 اگست کو جاری نوٹی فکیشن میں سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کوئی بھی سرکاری ملازم، حکومت کی اجازت کے بغیر کسی میڈیا پلیٹ فارم میں شرکت نہیں کر سکتا۔

اس نوٹی فکیشن کے تحت سرکاری ملازمین کو گورنمنٹ سرونٹس رولز 1964 کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سمیت مختلف میڈیا پلیٹ فارم میں شرکت کی نگرانی کی جاتی ہے۔

رولز 18 سرکاری ملازم کو کسی دوسرے سرکاری ملازم یا نجی شخص یا میڈیا سے سرکاری معلومات یا دستاویز شیئر کرنے سے روکتا ہے۔ جب کہ رول 22 کے تحت سرکاری ملازم کو میڈیا پر یا عوامی سطح پر کوئی بھی ایسا بیان یا رائے دینے سے روکا گیا ہے جس سے حکومت کی بدنامی کا خطرہ ہو۔