امریکی تعلیمی اداروں میں ڈرانے دھمکانے اور دھونس جمانے کا مسئلہ

امریکی تعلیمی اداروں میں ڈرانے دھمکانے اور دھونس جمانے کا مسئلہ

ستمبر 2010 میں ریاست نیوجرسی کی رٹگرز یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اپنے ساتھی طلبہ کے رویے سے تنگ آ کر اپنی جان لے لی۔ ٹیلر کلیمنٹی کی عمر صرف 18سال تھی۔

یہ واقعہ کافی عرصے تک خبروں میں نمایاں رہا۔ اور بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہو اکہ اب ہم اس قسم کا رویہ بالکل برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے بچوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ چنانچہ امریکی محکمہ تعلیم نے اکتوبر میں سکولوں کی انتظامیہ کو اس طرح کے رویوں پر کنٹرول کرنے کے احکامات جاری کیے۔

امریکی محکمہ تعلیم کے کیون جینیگر کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کا ایک دوسرے کو ڈرانا دھمکانہ کوئی نئی بات نہیں۔ نہ یہ رویہ کسی خا ص سکول یا علاقے تک محدود ہے۔ ان کا کہناہے کہ ہر تین میں سے ایک طالب علم کو اپنے ساتھوں کی دھونس ، رعب یا ان کی جانب سے تنگ کرنے اور نقصان پہنچانے جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض نوجوانوں میں یہ عادت اسکول کے زمانے سے ہی پڑ جاتی ہے جس کے لیے ضروری ہے اسکول کے زمانے میں ہی ان کی مناسب تربیت کی جائے۔

جینیگر کا کہناتھا کہ ہم پبلک ا سکول کو ایک ایسی جگہ سمجھتے ہیں جہاں لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنا سیکھتے ہیں۔ مختلف ثقافتوں پر مبنی جمہوریت اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے اگر اس کے شہری مختلف تہذیبوں اور روایتوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکیں۔ اگر ہم طلبہ کواختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے سے نہیں روک سکتے تو ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ ایک مہذب جمہوری نظام کا حصہ بنیں گے؟

امریکہ میں بعض سکول ڈرانے دھمکانے اور دھونس جمانے کے رویے کی روک تھام کےلیے اساتذہ کی تربیت اور طلبہ کے رویہ پر نظر رکھنے کے علاوہ کچھ دوسرے اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں واقع ای ایل ہینز پبلک چارٹر اسکول میں چھوٹی عمر کے بچوں کو منفردانداز میں تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں تعلیم صرف نصاب تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ سکول میں طالب علموں کویا ڈرانے دھمکانے کے روئیے سے باز رہنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اور ڈرانے دھمکانے کے کسی بھی واقعے کا بہت سنجیدگی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔

اسکول کی پرنسپل مشیل مولیٹور کہتی ہیں کہ ان کے سکول میں بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ کسی مشکل صورت حال میں اساتذہ سے رجوع کر سکتے ہیں، اور اساتذہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ طلبہ کے مسائل سلجھانے میں ان کی مدد کریں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ اسکولوں میں غلط روئیوں کو روکنے کےلیے کوئی پالسی یا حکمت عملی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ والدین بھی اس عمل میں پوری طرح شریک نہ ہوں۔