پاکستان میں قومی بجٹ سال 2021-22 پیش کر دیا گیا ہے جسے اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے غلط اعداد و شمار دے کر لفظوں کی ہیرا پھیری کی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس بجٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے معیشت کو مستحکم کر لیا ہے اور اب ہم نے شرح نمو بڑھانے کی طرف جانا ہے۔ اس بجٹ میں متوسط طبقے کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے اور غریب طبقے کے لیے بہت سی نئی سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔
بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے بھرپور احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف پوسٹرز لہرائے۔ حکومتی خواتین ارکان اور اپوزیشن کی خواتین کے درمیان ماحول تلخ رہا اور حکومتی خواتین ارکان نے زبردستی پوسٹرز پھاڑنے کی کوشش کی۔
بجٹ اجلاس کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے مشترکہ گفتگو کی۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومت نے غلط اعداد و شمار دیے اور جھوٹے دعوے کیے۔ ملک میں غریب مر رہا ہے اسے ایک وقت کی روٹی نہیں مل رہی اور یہ کہہ رہے ہیں کہ معیشت ترقی کر رہی ہے۔ ملک کے اندر غربت اور بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔ ملک بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہے۔
SEE ALSO: بجٹ 22-2021: کم سے کم ماہانہ تنخواہ 20 ہزار، پینشن میں 10 فی صد اضافے کا اعلانشہباز شریف نے آنے والے دنوں میں حکومت کو بجٹ پاس کروانے کے خلاف ٹف ٹائم دینے کا بھی اعلان کیا اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا بھی کہا، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عدم اعتماد پر مشاورت کی ہے۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے جو بجٹ پیش کیا، لگتا ہے کسی اور ملک کا بجٹ ہے اور یوں محسوس ہوا کہ وہ کسی اور ملک کی معیشت کی بات کر رہے تھے۔ بقول ان کے ایسا ملک جہاں تاریخی غربت، تاریخی مہنگائی اور تاریخی بے روزگاری کا عوام کو سامنا ہو، اس ملک کا وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اٹھ کر معاشی ترقی کی جب بات کرتے ہیں تو اس میں وزن نہیں ہوتا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات اپنی جگہ، لیکن ہمیں مل کر عوام دشمن بجٹ پر آواز اٹھانی چاہیے۔ ہم نے مل کر اس بجٹ اور نالائق اور نااہل حکومت کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی میں حکومت کو ’ٹف ٹائم‘ دینے کے لیے کہا کہ ہم نے وعدے کے مطابق اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی، بجٹ کا راستہ روکنے کے لیے اپوزیشن لیڈر کے حوالے کر دیے ہیں۔ اس حکومت کے خلاف شہباز شریف جس طرح چاہیں ہمارے اراکین کے ووٹ استعمال کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت نے اپوزیشن کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے بجٹ کو عوام دوست بجٹ قرار دیا ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بیان میں کہا کہ اس بجٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت میں استحکام آ گیا ہے اور اب ہم بہتر شرح نمو کی طرف جا رہے ہیں۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں بہت سی مراعات اور رعایتیں دی گئی ہیں۔ اس بجٹ میں متوسط طبقے کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے اور غریب طبقے کے لیے بہت سی نئی سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے لوگوں کو ان کے گھروں کا مالک بنانے کے لیے پالیسی مرتب کی گئی ہے اور اس سلسلے میں رقم مختص کی گئی ہے۔ جب کہ اس بجٹ میں کسانوں کے لیے بلاسود قرضوں کی فراہمی شامل ہے تا کہ زراعت کا شعبہ مزید ترقی کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے کوشش کی ہے کہ یہ "ایکسپورٹ لیڈ گروتھ بجٹ" یعنی برآمدات کے بڑھنے سے شرح نمو بڑھانے والا بجٹ ہو۔
SEE ALSO: قومی اسمبلی میں پیش بجٹ پر سوشل میڈیا پر تبصرےاجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے کہا کہ ابتدائی طور پر جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان پر بہت سے شکوک و شبہات ہیں۔ حکومت نے جو اہداف رکھے ہیں وہ ناقابل یقین ہیں اور یہ صرف لفظوں کا ہیر پھیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت گردشی قرضوں کے بارے میں سوالیہ نشان ہے۔ تجارتی خسارہ بڑھ چکا ہے اگر حکومت کو بیرون ملک سے زرمبادلہ نہ ملتا تو حالات بہت برے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ہر شعبے کے لیے مختلف ’لالی پاپس‘ کا اعلان کیا گیا ہے اور بقول ان کے یہ زیادہ تر جھوٹ پر مبنی بجٹ ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی عامر ڈوگر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک اب استحکام سے بڑھتی ہوئی شرح نمو کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان نے کرونا وبا کے دوران سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے حالات کو بہتر بنایا۔ اس سے ہمیں نظر آ رہا ہے کہ آئندہ دو سال ملک کی ترقی کے سال ہیں۔
SEE ALSO: معاشی استحکام کےحصول کے بعد ترقی کی جانب پیش رفت : وزیر خزانہ ترینانہوں نے کہا کہ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تھی تو بقول ان کے اُس وقت معیشت وینٹی لیٹر پر تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے دوست ممالک کے پاس بھی گئے۔ لیکن اب بقول ان کے، حالات بہتر ہو رہے ہیں اور ایسے میں حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہتے ہوئے ان کی کئی باتوں کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اس پروگرام سے نکلنے کے قابل ہو جائے گا۔
مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ جھوٹ کا بجٹ ہے۔ اس میں صرف ایک سچ ہے کہ تین ہزار ارب روپے کا سود ہے، جو ہمارے دفاع کی رقم سے دگنا ہے۔ 2018 میں دفاع کے لیے جو رقم رکھی گئی تھی اس وقت اس سے کم رقم ہے۔ بقول ان کے یہی حقیقت ہے اور باقی سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔