یورپی یونین کی انتظامی شاخ نے بدھ کے روز 27 ملکی اتحاد کے درمیان محفوظ سفر کو ممکن بنانے کے لیے سبز سرٹیفیکیٹ کے اجرا کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
یورپی رہنما اگلے ہفتے ہونے والے سمٹ کے دوران کووڈ 19 سفری دستاویزات پر مذاکرات کریں گے۔ تاہم یورپی کمیشن کی چیف ارسلا وون ڈر لیئین نے فوری طور پر اس منصوبے کے چیدہ چیدہ نکات پیش کئے ہیں جس کے ذریعے امید کی جا رہی ہے کہ گرمیوں کے دوران سیاحت، ثقافتی پروگراموں اور مشکلات کا شکار دیگر شعبوں کو مدد ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سرٹیفیکیٹ سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ جس شخص کے پاس یہ سرٹیفیکیٹ ہے اسے یا تو ویکسین لگ چکی ہے یا حال ہی میں اس کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آیا تھا، یا یہ شخص کرونا وائرس سے صحت یاب ہوچکا ہے لہٰذا اس کے جسم میں اینٹی باڈیز ہیں۔‘‘
انہوں نے سرٹیفیکیٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے مزید کہا کہ اس سرٹیفیکیٹ کے نتائج، جن میں کم سے کم ڈیٹا، یورپی یونین کے تمام ممبر ممالک میں منظم طور پر موجود ہو گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سرٹیفیکیٹ کے ذریعے ممبر ممالک میں محفوظ سفر کو ممکن بنایا جا سکے گا جو عالمی وبا کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔
یاد رہے کہ کووڈ پاسپورٹ کا خیال بعض وجوہات سے تنازع کا شکار ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ابھی تک یورپی یونین کے شہریوں کی قلیل تعداد کو ویکسین کی خوراک مل سکی ہے۔
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ سرٹیفیکیٹ تفریق کو رواج نہیں دیں گے۔ ان کی معلومات کو نجی رکھا جائے گا، یورپی قوانین کی پابندی کی جائے گی اور عالمی وبا کے بعد انہیں ختم کر دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک اسی قسم کے دوسرے پاسپورٹس کا خیال پیش کر چکے ہیں۔ ان میں دو ممبر ممالک یونان اور قبرص ہیں، جن کی معیشتوں کا انحصار سیاحت پر ہے۔ ان دونوں ممالک نے اسرائیل کے ساتھ ویکسین پاسپورٹ کے معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
کچھ ممالک ایسے پاسپورٹ کے خیال سے متفق نہیں ہیں۔
حال ہی میں فرانسیسی شہر مونٹاوبن میں ایک ملاقات کے دوران ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے ایسی سفری دستاویز کی حمایت کی اور خیال ظاہر کیا کہ اس سے سیاحت میں اضافہ ہو گا لیکن فرانسیسی صدر ایمانویل میخواں نے اس کے بارے میں اپنے خدشات ظاہر کئے۔
یورپی یونین کے کچھ شہری ایسی دستاویز پر اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف بورڈیا میں پولیسنگ اور نجی معاملات کے موضوع میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالب علم یوآن نابات کا کہنا ہے کہ ایسی سفری دستاویزات کی وجہ سے شہریوں کی نجی معلومات محفوظ نہیں رہ سکیں گی کیونکہ یہ ضرورت سے زیادہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔