برطانوی قانون ساز اس ماہ ایک درخواست پر بحث کریں گے جس پر پانچ لاکھ سے زائد افراد نے دستخط کیے تھے اور جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکہ کی ریپبلکن جماعت میں صدارتی نامزدگی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے برطانیہ داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔
گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر اس وقت تک مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا جب تک ’’ہمارے ملک کے نمائندے یہ نہیں سمجھ لیتے کہ کیا ہو رہا ہے‘‘۔ اس بیان پر دنیا بھر میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے یہ بات 2 دسمبر کو کیلیفورنیا میں ہونے والے واقعے کے بعد کہی تھی جس میں ایک مسلمان جوڑے نے 14 افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اس جوڑے کے بارے میں امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کا کہنا ہے کہ وہ انتہا پسندی کی طرف راغب تھے۔
ایوان زیریں کی پٹیشن کمیٹی کی طرف سے بلایا گیا یہ اجلاس 18 جنوری کو ہو گا مگر قانون سازوں کی طرف سے کیا گیا کوئی بھی فیصلہ قانوناً پابند کرنے والا نہیں ہو گا۔
دارالعوام کی پٹیشنز کمیٹی کی چیئرپرسن ہیلن جونز نے کہا کہ ’’بحث کی تاریخ مقرر کر کے کمیٹی اس بات پر اپنی رائے ظاہر نہیں کر رہی کہ حکومت کو ڈونلڈ ٹرمپ کو برطانیہ سے خارج رکھنا چاہیئے یا نہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’کسی بھی مسئلے پر بحث کے لیے اجلاس بلانے کی طرح اس فیصلے کا صرف یہ مطلب ہے کہ کمیٹی کا خیال ہے کہ اس مسئلے پر بحث ہونی چاہیئے۔ بحث سے کئی طرح کے خیالات کے اظہار کا موقع ملے گا۔‘‘
ماضی میں مختلف برادریوں کو آپس میں تشدد پر اکسانے والی نفرت انگریزی پھیلانے پر افراد کا برطانیہ میں داخلہ بند کیا گیا ہے۔
اس سے قبل پامیلا گیلر اور رابرٹ سپینسر جیسے مسلم مخالف امریکیوں کے علاوہ انتہا پسند اسلامی مبلغوں اور دیگر کا برطانیہ میں داخلہ بند کیا جا چکا ہے جن کے بارے میں سیکرٹری داخلہ کا فیصلہ تھا کہ ان کی موجودگی ’’مفاد عامہ کے لیے اچھی نہیں۔‘‘
دسمبر میں برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا کہ ٹرمپ کی تجویز ’’منقسم کرنے والی، غیر مفید اور سادہ الفاظ میں غلط‘‘ تھی۔
وزیر خزانہ جارج اوسبورن نے کہا کہ ٹرمپ کا بیان امریکہ کے بانی اصولوں کے منافی ہے مگر ان کا برطانیہ میں داخلہ بند کرنا اس پر رد عمل کا بہترین طریقہ نہیں۔
برطانوی حکومت دس ہزار سے زائد دستخط والی ہر درخواست کا جواب دیتی ہے جبکہ ان موضوعات پر پارلیمانی بحث کے لیے غور کیا جاتا ہے جن پر دستخطوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جائے۔