برطانیہ کے طول و عرض میں طلبہ کی جانب سے بدھ کے روز رواں ماہ میں دوسری بار ہونے والے پر تشدد مظاہروں نے حکام کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ ادھر مزید مظاہروں کے خدشے کے پیشِ نظر لندن پولیس کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں لندن کی سڑکوں پر ابتری کے مزید مناظر دیکھنے میں آئیں گے۔
برطانوی طلبہ حکومت کی جانب سے بجٹ خسارے میں کمی کی غرض سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں یونیورسٹی کی فیسوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
احتجاج کاپس منظر
برطانوی حکومت کو تاریخ کے بد ترین مالی خسارے کا سامنا ہے جو ملکی جی ڈی پی کے دس فی صد کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔مالی خسارے پر قابو پانے کیلئے برطانیہ کی مخلوط حکومت نے گزشتہ ماہ ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ منصوبے کے تحت آئندہ چار سالوں کے دوران سرکاری اخراجات میں 131 بلین ڈالرز کی کٹوتی ، 4 لاکھ 90 ہزار سرکاری ملازمتوں کے خاتمے، سوشل سیکورٹی کی مد میں کیے جانے والے اخراجات میں کمی اور تعلیم سمیت کئی شعبہ جات پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے گا۔
تعلیم پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے سے برطانوی یونیورسٹیز کی فیسوں میں تین گنا اضافہ متوقع ہے جس سے جامعات کی سالانہ فیسیں 14500 ڈالرز تک بڑھ جائیں گی۔
حکومتی اقدامات کے خلاف برطانیہ کی کئی ٹریڈ یونینز نے احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم تالاب میں پہلا پتھر طلبہ نے پھینکا جنہوں نے بدھ کے روز رواں ماہ میں دوسری بار ملک بھر میں مظاہرے کرکے حکومت کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔
اس سے قبل 10 نومبر کو دارالحکومت لندن میں پچاس ہزار سے زائد طلبہ نے احتجاجی جلوس نکالا تھا جس کے دوران سینکڑوں مظاہرین نے حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے دفتر پر حملہ کرکے اسے توڑ پھوڑ کا نشانہ بھی بنایا تھا۔
مظاہروں کا نیا سلسلہ
بدھ کے روز طلبہ نے برطانیہ بھر میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بائیکاٹ کیا اور مختلف شہروں اور قصبوں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ برطانیہ کی معروف تاریخی جامعات کیمبرج اور آکسفورڈ کے علاوہ لیڈز،برمنگھم، مانچسٹر، شیفیلڈ، برائٹن، برسٹل، گلاسگو، لیور پول اور دیگر مقامات پر ہونے والے پر امن مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ نے اپنی کلاسز کا بائیکاٹ کرنے کے بعد شرکت کی۔
کئی شہروں میں جامعات کے احتجاجی طلبہ سے اظہارِ یکجہتی کیلئے سیکنڈری اسکولوں اور کالجز کے کم عمر طلبہ بھی مظاہروں میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر نوجوان طلبہ کا جوش و خروش دیدنی تھا اور وہ مسلسل حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے رہے۔ سڑکوں، عوامی مقامات اور پبلک ہالز کے باہر ہونے والے مظاہروں کے علاوہ احتجاجی طلبہ دن بھر آکسفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی جامعات کے انتظامی دفاتر اور دیگر عمارات پر بھی قابض رہے۔
برطانیہ میں گزشتہ روز ہونے والے یہ مظاہرے مجموعی طور پر پرامن رہے تاہم لندن کے تاریخی مقام ٹریفالگر اسکوائر میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے والے طلبہ مظاہرین نے پولیس کی جانب سے پارلیمنٹ کی طرف مارچ سے روکے جانے کے بعد اہلکاروں سے ہاتھا پائی کی اور پولیس کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹا دیں۔ مظاہرین نے کئی بس اسٹاپ اور ایک پولیس وین کو بھی توڑ پھوڑ کا نشانہ بنانے کے بعد نذرِ آتش کردیا۔
تنقید کا ہدف: لبرل ڈیمو کریٹس
طلبہ مظاہرین کی اکثریت حکمران ٹوری پارٹی کی جونیئر اتحادی جماعت لبرل ڈیمو کریٹس سے نالاں ہے جس کے رہنماؤں نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تعلیمی اداروں کی فیسوں میں کسی بھی طرح کے اضافے کی سخت مخالفت کرنے کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں سے فیسوں کا مکمل خاتمہ کرنے کی جدوجہد کریں گے تاہم اپنے موقف کے برعکس لبرل ڈیمو کریٹس حکومت کی جانب سے یونیورسٹیز کو دی جانے والی براہِ راست گرانٹس میں کٹوتی اور انہیں اپنے اخراجات کیلئے طلبہ سے اضافی فیسیں وصول کرنے کا اختیار دینے کے فیصلے کی حمایت کررہے ہیں۔
بدھ کے روز ہونے والے مظاہروں میں شریک طلبہ کی اکثریت نے جو پلے کارڈز اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے ان پر لبرل ڈیموکریٹس اور اس کے سربراہ اور برطانوی نائب وزیرِ اعظم نک کلیگ کے خلاف نعرے درج تھے۔ لندن میں طلبہ کے ایک گروپ نے نائب وزیرِ اعظم کا پتلا بھی نذرِ آتش کیا جبکہ مظاہروں میں کلیگ اور ان کی جماعت کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی۔
حکومتی پلان کے اعلان کے بعد لبرل ڈیمو کریٹس نے موقف اختیار کیا ہے کہ برطانوی جامعات کو عالمی سطح پر بہتر مقام حاصل کرنے کیلئے اپنے فیس اسٹرکچر کو مستحکم کرنا ہوگا۔ پارٹی کے سربراہ اور نائب وزیرِ اعظم نک کلیگ نے گزشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ احتجاج کے باوجود جامعات کو فنڈز فراہم کرنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی حمایت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کا موجودہ قدم انتخابی مہم کے دوران ان کے اعلان کردہ منشور سے متصادم ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر کوئی حکمتِ عملی وضع نہیں کی جاسکتی۔
"احتجاج کے نئے رنگ"
لندن میٹروپولیٹن پولیس کے سربراہ سر پال اسٹیفنسن نے کہا ہے کہ 10 نومبر کو دارالحکومت میں ہونے والے طلبہ کے پر تشدد مظاہروں نے برطانیہ میں احتجاج کا رنگ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور بقول ان کے ان مظاہروں سے برطانیہ "احتجاج کے ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے"۔
جمعرات کے روز لندن کی میٹروپولیٹن پولیس اتھارٹی کے دفتر میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں اس طرح کے پر تشدد مظاہرے ماضی قریب میں دیکھنے میں نہیں آئے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مظاہرین اب اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرلیں گے جس کے نتیجے میں پولیس کو بھی اپنے طریقے میں تبدیلی لانی ہوگی۔
لندن کے پولیس کمشنر کا کہنا تھا کہ پر تشدد مظاہروں سے لگتا ہے کہ ان کا سلسلہ جاری رہے گا اورنتیجتاً لندن کی سڑکوں پر مستقبل میں مزید ابتری کا مظاہرہ ہونا سامنے کی بات ہے"
پال نے تسلیم کیا کہ دو ہفتے قبل ہونے والے مظاہروں کے پر تشدد ہوجانے کے حوالے سے پولیس پہلے سے خبردار نہیں تھی اور یہی وجہ تھی کہ مظاہرین پر بروقت قابو نہیں پایا جاسکا تاہم ان کا کہنا تھا کہ 10 نومبر کے برعکس بدھ کے روز ہونے والے مظاہروں کے موقع پر 800 سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جنہوں نے صورتِ حال کو کنٹرول کیے رکھا۔
اور اب برطانیہ۔۔۔
برطانیہ کے احتجاجی طلبہ نے خبردار کیا ہے کہ یہ ان کے احتجاج کا صرف آغاز ہے اور وہ ان مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ جمعرات کے روز بھی کئی شہروں اور جامعات میں طلبہ کا احتجاج جاری رہا۔ کارڈف یونیورسٹی کے پچاس سے زائد طلبہ نے یونیورسٹی کے احاطے میں فیسوں میں اضافے کے خلاف اپنا دھرنا مسلسل دوسرے روز بھی جاری رکھا۔
تاہم طلبہ کے شدید احتجاج کے باوجود کنزرویٹو جماعت سے تعلق رکھنے والے برطانوی وزیرِ تعلیم مائیکل گوو کا کہنا ہے کہ حکومت ہر صورت اپنی پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ طلبہ کے احتجاج کو انتہا پسند گروپوں نے ہاِئی جیک کرلیا ہے۔
تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ طلبہ تنظیموں کی جانب سے احتجاج کی اگلی کال دئیے جانے پر اساتذہ تنظیمیں اور لیبر یونینز بھی احتجاج میں شامل ہوسکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے نہ صرف برطانوی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا بلکہ ایک اور یورپی ملک کے احتجاج کی لپیٹ میں آجانے سے یورپ کی مجموعی معاشی قوت اور صنعتی پیداوار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
واضح رہے کہ یورپ بھر میں حکومتوں کی جانب سے گزشتہ برس آنے والی عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات کے ازالے کیلئے کفایت شعاری کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جبکہ حکومتوں کے ان اقدامات کے خلاف لیبر یونینز ، بائیں بازو کے سیاسی گروہوں اور مختلف عوامی طبقات کی جانب سے شدید مزاحمت کی جارہی ہے۔
رواں سال کے وسط میں یونان اور فرانس میں کئی ماہ تک جاری رہنے والے مظاہروں اور ہڑتالوں کے بعد احتجاج کا یہ سلسلہ اب مغربی یورپ تک جاپہنچا ہے۔ بدھ کو پرتگال میں بھی حکومتی معاشی اقدامات کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے۔ اس موقع پر ملک بھر میں لیبر یونینز کی اپیل پر مکمل ہڑتال کی گئی جسے گزشتہ دہائی کی سب سے کامیاب ہڑتال قرار دیا جارہا ہے۔ ہڑتال کے دوران ملک بھر میں ریل اور بس سروس مکمل طور پر معطل رہی جبکہ فضائی رابطے بھی محدود رہے۔