برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے دارالعوام سے عام انتخابات کے قبل از وقت انعقاد کا بل منظور کرا لیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، منگل کو ہونے والی ووٹنگ میں قبل از وقت انتخابات سے متعلق بل کے حق میں 438 جب کہ مخالفت میں 20 ووٹ ڈالے گئے۔
دارالعوام سے منظوری کے بعد یہ بل اب ہاؤس آف لارڈز (دارالامرأ) میں منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔ رواں ہفتے کے اختتام تک اس بل کی دارالامرا سے بھی منظوری کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اس بل کی منظوری سے برطانیہ میں 1923 کے بعد پہلی بار 12 دسمبر کو قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں گے۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان 13 دسمبر کو کیا جائے گا اور اگر کوئی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تو بریگزٹ سے متعلق ڈیڈ لاک برقرار رہے گا۔
وزیرِ اعظم بورس جانسن نے بل کی منظوری کے بعد کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ ملک کو متحد کریں اور برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ کریں۔
منگل کو ہونے والی ووٹنگ سے پہلے وزیرِ اعظم جانسن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ بریگزٹ کی راہ میں رکاوٹ ہے، جس کی وجہ سے معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔
قبل از انتخابات سے متعلق برطانیہ کے بعض سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ کرسمس سے قبل انتخابات کی وجہ سے ووٹرز پریشان ہو سکتے ہیں۔ شدید سردی کے موسم میں سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے اور ووٹرز کو گھروں سے نکلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم بورس جانسن نے رواں ماہ 15 اکتوبر کو قانون سازی کے تحت یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ایک نیا بل ایوان میں پیش کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اگر یہ بل مسترد ہوا تو وہ نئے انتخابات کے انعقاد کی کوشش کریں گے۔ مذکورہ بل ارکان نے مسترد کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ تین سال کے دوران دو وزرائے اعظم کی سبکدوشی کے باوجود برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کا معاملہ سیاسی بحران کا شکار ہے۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فی صد عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں رائے دی تھی، جس پر کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، کیونکہ وہ خود یورپی یونین میں رہنے کے خواہاں تھے۔
بعد ازاں، کنزرویٹو پارٹی کی رکن تھریسامے نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور بریگزٹ کے معاملے پر ناکامی کی صورت میں انہوں نے بھی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔