برطانیہ میں غذائی کچرے سے تیار کھانوں کا ریستوران

اقوام متحدہ کے اعداود شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صارفین اور کاروباری اداروں کی طرف سے ہر سال انسانی استعمال کے لیے تیار 1.3 ارب ٹن خوراک پھینک دی جاتی ہے یا برباد کردی جاتی ہے۔

خوراک انسان کا بنیادی حق ہے لیکن، دنیا میں 80 کروڑ 50 لاکھ افراد یا ہر نو میں سے ایک فرد بھوک کا شکار ہے۔ دوسری طرف یہ بات کافی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے گھر کا کچھ راشن کچرے دان میں پھینکنے کے لیے خریدتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اعداود شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صارفین اور کاروباری اداروں کی طرف سے ہر سال انسانی استعمال کے لیے تیار 1.3 ارب ٹن خوراک پھینک دی جاتی ہے یا برباد کردی جاتی ہے جو ناصرف ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہے بلکہ عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

خوراک کا عالمی دن بھوک کےخلاف کارروائی کا دن ہے۔ 16 اکتوبر کو دنیا بھر میں لوگ بھوک کے خاتمےکے خلاف اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں۔

برطانیہ میں قومی سطح پرخوراک کے ضیاع کے خاتمے کے لیے عوامی آگاہی کی تازہ ترین مہم ایک غیر منافع بخش تنظیم 'رئیل جنک فوڈ پراجیکٹ'کی طرف سے شروع کی گئی ہے جو برطانیہ بھر میں'پے ایز یو فیل کیفے' کا منظم نیٹ ورک کامیابی سے چلا رہی ہے اور اضافی خوراک کو کچرے میں جانے سے پہلے ہی چھانٹ لیتی ہے۔

تنظیم کی طرف سے دو سال قبل بریڈ فورڈ شہر میں' سالٹ ائیر کیفے' کے نام سے ایک ریستوران کھولا گیا ہے۔ سالٹ ائیر کیفےکی وجہ شہرت یہ ہےکہ ریستوران میں پیش کئے جانے والے پکوانوں کوان غذائی اشیاء سے تیار کیا جاتا ہے جسے سپر مارکیٹیں کچرا گردانتے ہوئے پھینک دیتی ہیں۔



کیفے میں کھانے کے بل کی ادائیگی کے لیے 'پے ایز یو فیل'کا طریقہ رکھا گیا ہے یعنی گاہک اپنی مرضی سے کھانے کا مناسب بل چندے یا پھر خدمات کی صورت میں ادا کرسکتے ہیں۔

ریستوران یورک شائر کاؤنٹی میں عالمی ورثہ قرار دیے جانے والے انیسویں صدی کےسالٹ ائیر نامی صنعتی گاؤں میں واقع ہے۔ ریستوران دو منزلہ شاندار عمارت پر مشتمل ہے جہاں 40 س زائد لوگوں کی نشست کا انتظام ہے۔

ریستوران کی عمارت پر بڑے بڑے انگریزی حروف میں 'پے ایز یو فیل' درج ہےجبکہ مرکزی دروازے کے باہررکھے بورڈ پر درج تحریر گاہکوں کو یہ بتاتی ہے کہ ریستوران میں کھانا اضافی خوراک سے تیار کیا جاتا ہے جسے شاید خوردہ فروش مارکیٹوں اور تھوک فروش مارکیٹوں کی طرف سے اس لیے کچرے کی نذر کر دیا جاتا کیونکہ ان غیر فروخت شدہ اشیائے خوردونوشکی استعمال کی تاریخ قریب آجاتی ہے اور انھیں سپر مارکیٹوں میں فروخت کے قابل نہیں سمجھا جاتا ہے۔



ریستوران میں کام کرنے والی ایک رضا کارخاتون ایسٹا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ریستوران کی خاص بات یہ ہے کہ ہمارے گاہکوں میں صرف مقامی ضرورت مند افراد ہی شامل نہیں ہیں بلکہ یہاں سیاحوں کا بھی بڑی تعداد میں آنا جانا لگا رہتا ہے جو غذائی کچرے سے تیار کھانوں میں خاص دلچسپی لیتے ہیں۔

ریستوران میں کام کرنے والی ایک دوسری رضا کار خاتون مونیکا کا کہنا تھا کہ ریستوران کا مقصد بچی ہوئی کھانے پینے کی اشیاء سے تازہ اور غذائیت سے بھر پور کھانا تیار کرنا ہے جبکہ یہاں کھانے کا مینو ہر روز تبدیل کیا جاتا ہے جسے ہماری باصلاحیت ٹیم کی طرف سے تیار کیا جاتا ہے۔



مونیکا نے بتایا کہ لنچ اور ڈنر میں زیادہ تر چار اقسام کے کھانے پیش کئے جاتے ہیں۔ جس میں سبزیوں کے سوپ اور بریڈ، سلاد، اور چاول کے ساتھ سبزیوں کی کوئی ڈش اور میٹھے میں عمدہ قسم کے کیک اور پیسٹریاں پیش کی جاتی ہیں۔

سیم ریستوران میں شیف کی خدمات انجام دیتے ہیں انھوں نے کہا کہ باورچی خانے میں ہر وقت راشن کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہوتا ہے اس کے علاوہ ریستوران کی طرف سے بڑی تقریبات کے لیے کیٹرنگ کی خدمات بھی فراہم کی جاتی ہے۔

رئیل جنک فوڈ منصوبے کے بانی ایڈم اسمتھہیں جنھوں نے 2013 میںاس منصوبے کا آغاز کیا تھا اور اب تک تنظیم کے تحتبرطانیہ، یورپ، آسٹریلیا اور اسرائیلمیں 125 سے زائد کیفے ریستوران کام کر رہے ہیں۔

پے ایز یو فیل کیفے مقامی غیر منافع بخش تنظیموں سپر مارکیٹوں، کیٹرنگ کمپنیوں کی مدد سے کام کرتے ہیں جبکہ اس کا تمام عملہ رضا کاروں پر مشتمل ہے جو اپنی خوشی سے بلا معاوضہ کام کرتے ہیں۔



ایڈم اسمتھ نے بتایا کہ پے ایز یو فیل کیفے ایک نامیاتی نیٹ ورک ہے جس کا مقصد نا صرف مستحق افراد کی بھوک مٹانا ہے بلکہ ضائع شدہ خوراک سے متعلق لوگوں کا رویہ تبدیل کرنا بھی ہے۔

ورلڈ فوڈ ڈے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک اور زراعت کے قیام کےدن کا جشن بھی ہے اس دن کو پہلی بار 1979 میں منایا گیا۔

خوراک کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق سب سے بڑے مسائل میں سے ایک خوراک کی حفاظت ہے اسی حوالے سے اقوام متحدہ نے 2016 کے خوراک کے عالمی دن کے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ'آب وہوا بدل رہی ہے، خوراک اور زراعت کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔'