برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے معاملے پر ایک اعلیٰ عدالت کے فیصلے پر اخبارات کی سخت تنقید کے بعد برطانیہ کی وزیر اعظم ٹریسا مئے کی طرف سے ملک کی عدلیہ کی آزادی کا دفاع کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات کو لندن کی ایک ہائی کورٹ نے بریگزٹ کے بارے میں ایک اہم فیصلہ سنایا عدالت کا فیصلہ اس بارے میں تھا کہ کیا پارلیمان یا حکومت یورپی یونین سے الگ ہونے کے لیے قانونی عمل کا آغاز کرنے کی آئینی طاقت رکھتی ہے؟
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ یورپی یونین سے الگ ہونے کی کارروائی کے آغاز کرنے کی آئینی طاقت صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے اور حکومت یورپی یونین سے انخلا کے عمل پر برطانوی پارلیمان میں بحث اور ووٹنگ کروائے۔
اس فیصلے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اٹھائیس ملکوں کے یورپی اتحاد سے الگ ہونے کے لیے قانونی عمل کے آغاز کا فیصلہ عدالت نے ایوان نمائندگان کے ہاتھوں میں دیا ہے۔
حالیہ عدالتی حکم نے بریگزٹ کے حامیوں اور ملک کے کچھ سیاستدانوں سمیت قوم پرست اخبارات کو ناراض کر دیا ہے برطانیہ کے معروف اخبارات ڈیلی میل، ایکسپریس، سن اور ٹیلی گراف نے عدالتی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ ڈیلی میل نے مذکورہ جج صاحبان کو عوام کا دشمن کہا ہے اور ایکسپریس اخبار نے عدالتی فیصلے کے دن کو جمہوریت کی موت کا دن قرار دیا۔
ٹریسا مے تین روزہ دورے پر پیر کو بھارت پہنچی ہیں انھوں نے ایک خطاب میں کہا کہ وہ عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی ہیں اور پریس کی آزادی کو بھی اہم سمجھتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ دونوں ہماری جمہوریت کے دو ستون ہیں اور دونوں بہت اہم ہیں۔
اخبار اسکائی نیوز کے مطابق ٹریسا مے نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ عدلیہ کے گزشتہ ہفتے کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے حکومت کا کیس مضبوط ہے۔
حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اگلے ماہ سپریم کورٹ میں اپیل کر رہی ہے اور ٹریسا مے کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بریگزٹ سیکرٹری ڈیوڈ ڈیوس نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے جواب میں پیر کے روز حکومتی کیس کا خاکہ مرتب کیا ہے۔
وزیر اعظم ٹریسا مے نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کے دلائل مضبوط ہیں اور ہم ان دلائل کو لے کر سپریم کورٹ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ یہ تسلیم کریں کہ پارلیمنٹ میں ایک ووٹ پڑا تھا اور پارلیمنٹ نے برطانوی عوام کو یورپی یونین میں ہماری رکنیت پر فیصلہ دینے کے لیے ووٹ دیا تھا۔
انھوں نے واضح کیا کہ اکثریت نے یورپی یونین چھوڑنے کے لیے ووٹ دیا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہمیں برطانوی عوام کے فیصلے کے اطلاق کو ممکن بنانا چاہیئے۔
برطانوی وزیر انصاف لز ٹروس نے ارکان پارلیمنٹ اور اخبارات کے موقف پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہوئے ہفتے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ عدالت کی غیر جانبداری کو پوری دنیا میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد کی صورتحال:
عدالتی فیصلے کے ردعمل نے برطانوی عوام کے درمیان ایک تلخ تقسیم کا انکشاف کیا ہے، جنھوں نے جون میں ریفرینڈم کے ووٹ کے ذریعے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں 23 جون کو ہونے والے ریفرینڈم میں عوام کی اکثریت نے بریگزٹ یعنی برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کےحق میں فیصلہ دیا تھا۔
ٹریسا مے نے کنزرویٹیو کی کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ عوامی فیصلے کی روشنی میں اگلے سال مارچ کے مہینے تک لزبن معاہدے کی 50 ویں شق کے تحت یورپی یونین سے علیحدگی کی باضابطہ درخواست کریں گی۔
وہ واضح کر چکی ہیں کہ ریفرینڈم اور موجودہ وزارتی طاقت کا مطلب یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو بریگزٹ پر ووٹ دینے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اس فیصلے کے خلاف مہم چلانے والوں نے اسے غیر آئینی کہا ہے۔
کنزرویٹیو کے رہنما اسٹیفن فلپس نے بریگزٹ کے عمل کے طریقہ کار پر ٹریسا مے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اپنی پارلیمانی نشست سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ گارڈین اخبار کے مطابق وہ ٹریسا مے کے پارلیمان سے مشاورت کے بغیر یورپی یونین سے باہر نکالنے کے مذاکرات شروع کرنے کی تاریخ کے اعلان پر خوش نہیں تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹریسا کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ ان کی جماعت کے تیسرے رہنما ہیں جنھوں نے استعفیٰ پیش کیا ہے ان سے پہلے جولائی میں سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور حال ہی میں زیک گولڈ اسمتھ نے ہیتھرو ہوائی اڈے کی توسیع کی اجازت دینے کے ایک فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ دیا ہے جس سے وزیر اعظم کو ان کی نشست پر ضمنی انتخابات کا سامنا ہے۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کی مہم کے سربراہ یوکپ کے رہنما نائجل فراج نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مجھے فکر ہے کہ یہ ایک دھوکے سے قریب فیصلہ ہو سکتا ہے اور مجھےخوف ہے کہ آرٹیکل 50 کے راستے میں رکاوٹ یا تاخیر کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
عدلیہ کا فیصلہ برطانیہ کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب کرے گا اور آنے والے دنوں میں برطانیہ کی سیاست میں کیا اتار چڑھاؤ آ سکتے ہیں اس حوالے سے 'ورلڈ کانگریس آف اوورسیز پاکستانیز' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور تجزیہ کار عارف انیس کہتے ہیں کہ یہ ایک کافی بے دھڑک فیصلہ تھا جس کے بعد ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی ہے اور کچھ سیاست دانوں کی طرف سےججز پر بھرپور حملہ بھی کیا گیا ہے اور پھر سے وہی پرانی بات دہرائی جا رہی ہے کہ ملک میں عدالت یا پارلیمنٹ میں سے کون بالا دست ہے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ (وی او اے) سے بات چیت میں کہا کہ جب سے بریگزٹ ہوا ہے برطانیہ میں ایک عجیب سی کیفیت ہے خاص طور پر یوکپ کے ایک سروے سے پتا چلتا ہے کہ بریگزٹ کے منفی معاشی اثرات کے بعد 12 سے 25 فیصد لوگ جنھوں نے یونین چھوڑنے کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا تھا اپنا پچھتاوا ظاہر کیا ہے اور کہا کہ اگر دوبارہ ریفرینڈم ہوا تو وہ یونین میں رہنے کے لیے اپنا ووٹ ڈالیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمیونٹی میں اس فیصلے پر خوش نظر آتی ہے جب کہ وہاس سے پہلے بریگزٹ کے حامی تھے تاہم یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد سے ملک بھر میں نفرت اور مذہبی تعصب کے جرائم میں اضافے کو دیکھ کر پاکستان کمیونٹی میں بھی خوف کی فضا پائی جاتی ہے لہذا پاکستانیوں کی اکثریت یہ چاہے گی کہ سپریم کورٹ اس فیصلے کو برقرار رکھے۔
لیکن بریگزٹ کےحامیوں کا الزام ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں آرٹیکل 50 پر ووٹنگ ہوئی تو ارکان پارلیمنٹ اسے ریفرینڈم کا نتیجہ تبدیل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
عارف انیس کے مطابق اگر پارلیمنٹ میں یہ معاملہ جاتا ہے تو دارالعوام اور ہاوس آف لارڈز میں یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں مہم چلانے والوں کی اکثریت ہے اس طرح یورپی یونین سے الگ ہونے کی کارروائی کے آغاز کا عمل مزید طوالت اختیار کر سکتا ہے جس سے 2017ء میں انتخابات کی راہیں کھل سکتی ہیں کیونکہ اگر ایک ڈیڈ لاک آتا ہے تو ریفرینڈم کے حوالے سے برطانیہ کی کئی سو سالہ روایات کو دیکھتے ہوئے ایک برطانوی سوچ کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو بریگزٹ کے حامی نہیں تھے وہ بھی یہ چاہیں گے کہ اگر اکثریت نے یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو ان کے فیصلے کا احترام کیا جائے۔
لیکن اسی وقت بریگزٹ کے منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یا تو بریگزٹ نافذ ہو گی یا پھر اس کو روکا جائے گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو برطانیہ میں دائیں بازو کی سیاست اس سے دستبردار نہیں ہو گی اور ایک ایسی فضا بالکل بن سکتی ہے جہاں لوگ سڑکوں پر نکلیں اور برطانیہ میں بھی دھرنوں کی نوبت آ سکتی ہے۔