برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ایک نئے سمجھوتے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
یورپی یونین کے صدر جین کلاڈ جنکر نے بھی اعلان کیا ہے کہ برسلز میں یورپی یونین اور برطانوی حکام کے درمیان طے شدہ سمٹ سے قبل ہی نئی ڈیل پر اتفاق ہو گیا ہے۔
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ "ہم یورپی یونین کے ساتھ ایک بڑی ڈیل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔"
مبصرین کے نزدیک برطانوی وزیر اعظم کو نیا معاہدہ برطانوی پارلیمان سے منظور کرانے کے لیے سخت مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
کلاڈ جنکر کا کہنا تھا کہ فریقین قابل عمل سمجھوتے پر متفق ہو گئے ہیں۔ یہ ایک مناسب اور متوازن معاہدہ ہے۔
ان کے مطابق یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنے تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔
یورپی یونین کے صدر کا کہنا تھا کہ وہ دیگر 27 رکن ممالک سے کہیں گے کہ وہ بھی اس معاہدے کی منظوری دے دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ ہم برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے معاملات مکمل کر کے آگے بڑھیں اور آئندہ کا طریقہ کار وضع کریں کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے تعلقات کی نوعیت اب کیسی ہو گی۔
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ وہ پرامید ہیں کہ ہفتے کو برطانوی پارلیمان کے غیر معمولی اجلاس میں وہ یہ نیا معاہدہ منظور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
شمالی آئرش پارٹی نے مجوزہ معاہدے کو مسترد کر دیا ہے جب کہ اپوزیشن پارٹی کے اہم رہنما جیرمی کوربن نے بھی معاہدے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کے حوالے سے خوش نہیں ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ پارلیمان میں اس کی مخالفت کریں گے۔
آئرش بیک اسٹاپ کا کیا ہو گا؟
برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے معاملے پر سب سے اہم اختلافی نکتہ برطانیہ میں شامل شمالی آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ملک آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رکھنے کا معاملہ تھا۔
مجوزہ معاہدے کے تحت شمالی آئرلینڈ برطانیہ کی کسٹم حدود میں رہے گا تاہم برطانیہ سے شمالی آئرلینڈ کے ذریعے آئرلینڈ اور یورپ جانے والے سامان پر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
یورپی یونین ماضی میں یہ یقین دہانی کرا چکی ہے کہ بریگزٹ کے بعد بھی یہ سرحد جزوی کھلی رہے گی۔ لیکن 'آئرش بیک اسٹاپ' نامی اس شرط کو برطانوی پارلیمان نے ملک تقسیم کرنے والا اقدام قرار دیتے ہوئے ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
یورپی یونین کی یقین دہانیوں کے باوجود برطانوی پارلیمان اس نکتے پر قائل نہیں ہوئی تھی۔
برطانیہ کے عوام نے 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں 48 فی صد کے مقابلے میں 52 فی صد کی اکثریت سے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
لیکن اس ووٹ کے نتیجے میں برطانوی معاشرہ، سیاست اور سیاسی جماعتیں بری طرح تقسیم کا شکار ہوچکی ہیں اور گزشتہ تین سال سے یہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان حل طلب معاملہ بنا ہوا ہے۔
بریگزٹ پر ریفرنڈم کے بعد اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہو گئے تھے۔
ان کے بعد ان کی پیش رو تھریسا مے بھی بریگزٹ معاہدے سے متعلق برطانوی پارلیمان کو قائل کرنے میں ناکامی پر وزارتِ عظمی سے محروم ہو گئی تھیں۔
اب ان کے بعد موجودہ وزیرِ اعظم بورس جانسن کو بھی ان دنوں اس معاملے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔