جمعرات کو برازیل کے درجنوں شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جن میں لگ بھگ 10 لاکھ شہریوں نے شرکت کی تھی۔
واشنگٹن —
برازیل میں گزشتہ ہفتے سے جاری احتجاجی مظاہروں میں شدت آنے کے بعد ملک کی صدر ڈلما روزیف نے اپنی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔
صدر کی جانب سے کابینہ کا اجلاس طلب کرنے سے قبل جمعرات کو ملک کے درجنوں شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جن میں لگ بھگ 10 لاکھ شہریوں نے شرکت کی تھی۔
صرف ریوڈی جینرو میں ہونے والے احتجاج میں کم از کم تین لاکھ افراد شریک تھے جن کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
مظاہرین نے دارالحکومت برازیلیا میں وزارتِ خارجہ کی عمار ت پر بھی دھاوا بول دیا تھا اور عمارت پر جلتی ہوئی اشیا اور فائر کریکرز پھینکے تھے۔
بعد ازاں پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں فائر کرکے مظاہرین کو عمارت سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔
حکومت کی جانب سے رعایتی اقدامات کے اعلان کے باوجود مظاہرو ںمیں کمی نہ آنے کے بعد صورتِ حال پرغور کے لیے صدر روزیف نے جمعے کو اپنی کابینہ کے وزرا کو مشاورت کے لیے طلب کیا ہے۔
داخلی صورتِ حال کے پیشِ نظر صدر روزیف نے اپنا طے شدہ دورہ جاپان بھی ملتوی کردیا ہے جس پر انہیں آئندہ ہفتے روانہ ہونا تھا۔
حالیہ احتجاج کا سلسلہ حکومت کی جانب سے بسوں اور زیرِ زمین ٹرینوں کے کرایے میں اضافے کے خلاف شروع ہوا تھا جس نے اب حکومت کے معاشی اقدامات، عوامی سہولتوں کی عدم دستیابی، ٹیکسوں کی بلند شرح اور بدعنوانی کے خلاف عوامی ردِ عمل کی شکل اختیار کرلی ہے۔
ابتدائی احتجاج کے بعد سائو پولو اور ریوڈی جینرو کی مقامی حکومتوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا ہے لیکن اس کے باوجود مظاہرین اپنا احتجاج ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔
مظاہروں کے شرکا برازیل کی میزبانی میں رواں ماہ ہونے والے 'کنفڈریشنز کپ'، آئندہ سال ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ اور 2016ء میں ہونے والے 'سمر گیمز' کی تیاریوں کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنے پر بھی کڑی تنقید اور ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق برازیل میں گزشتہ 20 برسوں میں پہلی بار اتنا سخت اور اتنے بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج دیکھنے میں آیا ہے جس نے دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک، برازیل، کی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے۔
صدر کی جانب سے کابینہ کا اجلاس طلب کرنے سے قبل جمعرات کو ملک کے درجنوں شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جن میں لگ بھگ 10 لاکھ شہریوں نے شرکت کی تھی۔
صرف ریوڈی جینرو میں ہونے والے احتجاج میں کم از کم تین لاکھ افراد شریک تھے جن کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
مظاہرین نے دارالحکومت برازیلیا میں وزارتِ خارجہ کی عمار ت پر بھی دھاوا بول دیا تھا اور عمارت پر جلتی ہوئی اشیا اور فائر کریکرز پھینکے تھے۔
بعد ازاں پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں فائر کرکے مظاہرین کو عمارت سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔
حکومت کی جانب سے رعایتی اقدامات کے اعلان کے باوجود مظاہرو ںمیں کمی نہ آنے کے بعد صورتِ حال پرغور کے لیے صدر روزیف نے جمعے کو اپنی کابینہ کے وزرا کو مشاورت کے لیے طلب کیا ہے۔
داخلی صورتِ حال کے پیشِ نظر صدر روزیف نے اپنا طے شدہ دورہ جاپان بھی ملتوی کردیا ہے جس پر انہیں آئندہ ہفتے روانہ ہونا تھا۔
حالیہ احتجاج کا سلسلہ حکومت کی جانب سے بسوں اور زیرِ زمین ٹرینوں کے کرایے میں اضافے کے خلاف شروع ہوا تھا جس نے اب حکومت کے معاشی اقدامات، عوامی سہولتوں کی عدم دستیابی، ٹیکسوں کی بلند شرح اور بدعنوانی کے خلاف عوامی ردِ عمل کی شکل اختیار کرلی ہے۔
ابتدائی احتجاج کے بعد سائو پولو اور ریوڈی جینرو کی مقامی حکومتوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا ہے لیکن اس کے باوجود مظاہرین اپنا احتجاج ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔
مظاہروں کے شرکا برازیل کی میزبانی میں رواں ماہ ہونے والے 'کنفڈریشنز کپ'، آئندہ سال ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ اور 2016ء میں ہونے والے 'سمر گیمز' کی تیاریوں کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنے پر بھی کڑی تنقید اور ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق برازیل میں گزشتہ 20 برسوں میں پہلی بار اتنا سخت اور اتنے بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج دیکھنے میں آیا ہے جس نے دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک، برازیل، کی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے۔