نائجیریا: بوکو حرام مغوی طالبات کے قصبے پر قابض

فائل

چیبوک کی "بزرگ کونسل" کے سربراہ پوگو بٹرس نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ شدت پسندوں نے قصبے پر جمعرات کی شام حملہ کیا تھا۔

نائجیریا میں سرگرم شدت پسند تنظیم 'بوکو حرام' نے ملک کے اس قصبے پر قبضہ کرلیا ہے جہاں سے تنظیم کے جنگجووں نے چھ ماہ قبل 200 سے زائد طالبات کو اغوا کرلیا تھا۔

نائجیریا کی شمال مشرقی ریاست بورنو کے قصبے چیبوک کی "بزرگ کونسل" کے سربراہ پوگو بٹرس نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ شدت پسندوں نے قصبے پر جمعرات کی شام حملہ کیا تھا۔

ان کے مطابق قصبے میں موجود فوجیوں اور عام شہریوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن جنگجو تعداد میں بہت زیادہ تھے۔

پوگو بٹرس نے دارالحکومت ابوجا سے ٹیلی فون پر 'وی او اے' کو بتایا کہ قصبے کے رہائشیوں اور شدت پسند تنظیم کے جنگجووں کے درمیان جھڑپیں پوری رات جاری رہیں جس کے بعد جمعے کی صبح نزدیکی قصبے دمبووا سے فوج کا ایک دستہ چیبوک کی طرف روانہ کردیا گیا ہے۔

"بزرگ کونسل" کے سربراہ نے بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ قصبے کے باشندے اب بھی شدت پسندوں کےخلاف مزاحمت کررہے ہوں گے۔

خیال رہے کہ بوکو حرام کے جنگجووں نے رواں سال بورنو اور اس سے متصل ریاست اداماوا کے کئی قصبوں اور دیہات پر قبضہ کرکے وہاں اپنی "خلافت" قائم کرلی تھی جس کے بعد سے جنگجو مسلسل دوسرے علاقوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

نائجیرین فوج اور شہری لشکر بعض علاقوں کا قبضہ جنگجووں سے چھڑانے میں کامیاب رہے ہیں لیکن جنگجو اب بھی کئی علاقوں پر قابض ہیں جہاں ان کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

'بوکو حرام' اور نائجیرین حکومت نے 17 اکتوبر کو جنگ بندی کے ایک معاہدے پر اتفاق کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود شدت پسندوں کے حملے جاری ہیں جس پر نائجیرین سکیورٹی فورسز بھی جوابی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد 'بوکو حرام' کے سربراہ ابو بکر شیخو نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ایسے کسی بھی معاہدے کی تردید کی تھی۔

شدت پسند رہنما میں اپنے پیغام میں چیبوک سے اغوا کی جانے والی طالبات کی رہائی کے حکومتی دعووں کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تمام لڑکیاں مسلمان ہوچکی ہیں جن کے بعد ان کی شادیاں کردی گئی ہیں۔

'بوکو حرام' کے جنگجووں نے ان طالبات کو رواں سال 14 اپریل کو چیبوک کے سیکنڈری اسکول پر حملہ کرکے اغوا کرلیا تھا جس کے بعد سے ان کا کچھ اتا پتا نہیں۔

نائجیرین حکومت کی جانب سے ان طالبات کی رہائی کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد سے کی جانے والی تمام کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔