کان میں پھنسے دو چینی انجینئرز کی لاشیں نکال لی گئیں

فائل فوٹو

اُدھر شورش زدہ اس صوبے میں جمعرات کو تشدد کے ایک تازہ واقعے میں دو افراد ہلاک اور 9 شدید زخمی ہوگئے زخمیوں کو سبی اسپتال میں منتقل کیا گیا جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

پاکستان اور چین کی امدادی ٹیمیں دو چینی انجینئروں کی لاشیں سیسے کی کان سے نکالنے میں کامیاب ہو گئیں تاہم پاکستانی مزدور کی لاش کو تلاش کرنے کا کام تاحال جاری ہے۔

بلوچستان کے جنوبی ضلع لسبیلہ میں کنراج کے علاقے میں

24 ستمبر کو سیسے کی کان میں پھنس جانے والے ایک پاکستانی مزدور کو نکالنے کے لیے چین کے دو انجینئیر کان کےاندر چلے گئے تھے، جہاں وہ کان کے اندرگیس بھر جانے کے باعث سات سو فٹ نیچے زیر زمین پھنس گئے۔

تینوں افراد کو نکالنے کے لیے اُس وقت سے کوششیں جاری تھیں اور کام میں مدد کے لیے راولپنڈی سے ایک ٹیم بھی لسبیلہ بھیجی گئی تھی۔

بعد ازاں چینی ماہرین کی ایک ٹیم بھی جدید مشینری کے ساتھ اس کام میں شامل ہو گئی اور 27 روز تک کان سے پانی نکالنے کے بعد بدھ اور جمعرات کے درمیانی شب دو چینی انجینئیروں کی لاشوں کو نکال لیا گیا۔

بعد ازاں دونوں لاشوں کو کر اچی منتقل کر دیا گیا، جس کے بعد اُنھیں چین بھیجا جائے گا۔

اُدھر شورش زدہ اس صوبے میں جمعرات کو تشدد کے ایک تازہ واقعے میں دو افراد ہلاک اور 9 شدید زخمی ہوگئے زخمیوں کو سبی اسپتال میں منتقل کیا گیا جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

لیویز حکام کے مطابق صوبے کے مشرقی ضلع سبی کے علاقے سانگان سے سبی بازار آنے والی مسافر گاڑی سڑک میں نصب بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی، جس سے گاڑی میں سوار افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔

قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے میں 2000ء سے صوبے کے ساحل اور وسائل پر مکمل اختیار کے لیے بعض کالعدم قوم پرست تنظیموں کے ارکان سیکورٹی اداروں پر جان لیوا حملوں کے ساتھ ساتھ قومی تنصیبات کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں جس میں اب تک سیکورٹی اداروں کے ہزاروں اہلکار زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

جب کہ دوسری طرف صوبے کی قوم پر ست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ہزاروں کارکنوں کو لاپتہ کیا گیا ہے جن کا الزام وہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں پر لگاتے ہیں تاہم سیکورٹی ادارے ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

تجزیہ نگار امان اللہ شادیز ئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت کے دور میں بیرون ملک مقیم بلوچ رہنماﺅں سے وطن واپس آنے کے حوالے سے مذاکرات شروع کئے گئے تھے جس کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال کچھ بہتر ہو گئی تھی، تاہم اُن کے بقول موجودہ صوبائی حکومت نے بات چیت کا سلسلہ ترک کر دیا ہے جس سے حالات میں ایک مرتبہ پھر ابتری آ رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا ءاللہ زہری کا کہنا ہے کہ ہتھیار اُٹھانے والے بلوچ اگر ریاست کی عملدار ی کو تسلیم کریں اور پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر بات چیت کرنا چاہیں تو حکومت اُن کا خیر مقدم کرے گی۔