اسلام آباد کی پولیس نے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور بلاگر محمد بلال خان کے قتل کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔
بلال خان کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب وفاقی دارالحکومت میں نامعلوم افراد نے چھریوں کے وار کرنے کے بعد فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق قتل کا مقدمہ بلال خان کے کزن کی مدعیت میں تھانہ کراچی کمپنی میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کی یہ واردات اسلام آباد کے علاقے جی-9/4 میں پیش آئی تھی۔ نامعلوم افراد نے بلال خان کو فون کرکے بلایا تھا اور انہیں خنجروں کے وار کرکے شدید زخمی کرنے کے بعد ان پر فائرنگ کردی تھی۔
واقعے کے وقت بلال خان کے ساتھ ان کے ایک کزن احتشام بھی موجود تھے جو زخمی حالت میں اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
دائیں بازو کے نظریات کے حامل محمد بلال خان ناموسِ رسالت کے معاملے پر سوشل میڈیا پر خاصے متحرک تھے۔
بلال نے اپنے قتل سے کچھ دیر قبل ایک ٹوئٹ میں پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے 'انٹر سروسز انٹیلی جنس' (آئی ایس آئی) کے نئے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید پر بھی تنقید کی تھی۔
پاکستان کے نامور حاضر سروس سیاستدان جنرل فیض حمید نئے ڈی جی آئی ایس آئی مقرر۔۔۔۔موصوف کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار صلاحتیوں سے نوازا ہے، دل اُن کا فوجی، دماغ سیاسی ہے، بیک وقت سیکیولرز اور مذہب پسندوں کو "اُٹھانا" اور "بٹھانا" جانتے ہیں، تقریباً امیرالمؤمنین بننے کی صلاحیت ہے۔
— Muhammad Bilal Khan (@BilalKhanWriter) June 16, 2019
محمد بلال خان کا آبائی تعلق گلگت بلتستان سے تھا اور وہ اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی شریعہ فیکلٹی کے طالبِ علم تھے۔
ٹوئٹر اور فیس بک ہر بلال خان کے ہزاروں فالوورز ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے قتل کے خلاف ٹرینڈ #Justice4MuhammadBilalKhan بھی چل رہا ہے۔
صحافی سبوخ سید نے واقعے کے متعلق وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بلال بہارہ کہو میں اپنے کزن کے گھر کھانے کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ انھیں کسی کا فون آیا۔
سبوخ سید کے بقول بلال کے والد نے بتایا ہے کہ کال کسی عثمان یا رضوان نامی شخص کی تھی جس پر وہ کھانا چھوڑ کر اپنے کزن احتشام کے ہمراہ کئی کلومیٹر دور جی-نائن/فور کے علاقے کی گلی نمبر 87 میں واقع مسجد حسن پہنچے جہاں ان پر حملہ ہوا۔
سبوخ سید نے بتایا کہ بلال اور ان کے کزن کو قریب واقع پمز اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں بلال زخموں کے باعث جانبر نہ ہو سکے۔ جب کہ ان کے کزن احتشام زخمی حالت میں زیرِ علاج ہیں۔
ان کے بقول پولیس نے موبائل کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے اور امید ہے کہ قاتل جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔
بلال خان کے قتل کی واردات پر اسلام آباد پولیس نے کوئی ردِ عمل دینے سے معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
بلال خان کے قتل کی سوشل میڈیا پر سخت مذمت کی جا رہی ہے اور کئی نمایاں شخصیات، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹوئٹر پر قتل کی مذمت کرنے والوں میں وزیرِ مملکت علی محمد خان بھی شامل ہیں۔
Strongly condemn the killing of M Bilal Khan,May Allah grant him Maghfirah. InshaALLAH the State will leave no stone unturned to apprehend his killers. #Justice4MuhammadBilalKhan
— Ali Muhammad Khan (@Ali_MuhammadPTI) June 17, 2019
Inna Lillahi Was Inna Lillahi Rajioun. Bilal was a young, articulate and bold man. We spoke many times always being on the opposite ends of the spectrum. May God bless his soul and give his family courage. #Justice4MuhammadBilalKhan https://t.co/86ggs0xDfW
— M. Jibran Nasir (@MJibranNasir) June 17, 2019