امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ روس کےیوکرین پر حملے کے بعد عائد کی گئی مغربی پابندیاں مؤثر ثابت ہو رہی ہیں جن کے نتیجے میں ماسکو کے لیے جنگ کو آگے بڑھانا مشکل ہو رہا ہے۔
اینٹنی بلنکن نے نشریاتی ادارے 'سی این این' کے 'اسٹیٹ آف دی یونین' شو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تجارتی کنٹرول کے باعث روس ان پرزوں کو درآمد نہیں کر سکتا جو اسے مزید ہتھیاروں کے بنانے میں درکار ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ روس کو ہر روز جنگ کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور اس پر روز بروز بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ مغربی اتحادی روس کی معیشت اور اس کی جنگی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے پابندیوں کو مزید سخت کرنے کے لیے 'مسلسل طریقے تلاش کر رہے ہیں۔'
بلنکن نے ماسکو پر الزام لگایا ہے کہ وہ فضائی حملوں کے ذریعےموسم سرما کو بطور ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان فضائی حملوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران یوکرینی عوام کے حوصلے پست کرنے کے لیے بجلی اور پانی کی سپلائی لائنوں کو نشانہ بنایا گیا۔
بلنکن نے کہا: "یہ واقعی وحشیانہ ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب بر طانوی وزارتِ دفاع کے ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے لیے روسی عوامی حمایت میں کمی آ رہی ہے۔
ایک انٹیلی جنس اپ ڈیٹ میں برطانوی وزارت نے اتوار کی صبح ایک آزاد روسی میڈیا آؤٹ لیٹ کے دعوے کے حوالے سے کہا تھا کہ روس کی 'فیڈرل پروٹیکٹو سروس' کے جمع کردہ ڈیٹا تک رسائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ 55 فی صد روسی یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات کے حامی ہیں جب کہ صرف 25 فی صد کا کہنا ہے کہ وہ جنگ جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔
اس سے قبل اپریل میں تقریباً 80 فی صد روسیوں نے یوکرین پر حملے کی حمایت کی تھی۔
ادھر روسی توانائی کے سربراہ نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک نے اتوار کو کہا کہ ماسکو مغربی قیمتوں کی حد سے مشروط تیل فروخت نہیں کرے گا چاہے اسے پیداوار میں کمی کرنا پڑے۔
SEE ALSO: کیا روس سے تیل کی خریداری پاکستان کے لیے قابلِ عمل ہے؟نوواک نے' گروپ آف سیون' کے صنعتی ممالک اور آسٹریلیا کی جانب سے جمعے کو عائد کردہ 60 ڈالر فی بیرل قیمت کی حد کو عالمی توانائی کی تجارت میں بڑی مداخلت قرار دیا اور کہا کہ اس طرح کی مداخلت مارکیٹ کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے اور یہ عمل سپلائی کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
نوواک کے بقول "ہم تیل اور پیٹرولیم مصنوعات صرف ان ممالک کو فروخت کریں گے جو مارکیٹ کے حالات میں ہمارے ساتھ کام کریں گے، چاہے ہمیں پیداوار میں تھوڑی بہت کمی کرنا پڑے۔"
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے قیمت کی حد کو بہت کم قرار دیا ہے جب کہ امریکہ نے اس اقدام کا دفاع کیا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے اسٹرٹیجک کمیونی کیشن کے کوآرڈینیٹر جان کربی نے جمعے کو کہا تھا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ 60 ڈالر فی بیرل کی حد مناسب ہے اور اس حد کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔"
امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن کی طرف سے تجویز کردہ اس حد کا مقصد روس کی تیل کی آمدنی کو کم کرنا ہے جو اس کی فوج اور یوکرین پر حملے کی حمایت کرتی ہے۔
روس پر عائد کی گئی تیل کی قیمت کی حد کا اطلاق پیر سے ہوگا جو زیادہ تر روسی تیل کی ترسیل پر یورپی یونین کی پابندی کے ساتھ ہی عائد ہو رہی ہے۔
SEE ALSO: قطر کا جرمنی کو سالانہ 20 لاکھ ٹن مائع گیس فراہم کرنے کا 15 سالہ معاہدہابھی یہ واضح نہیں کہ یہ اقدامات تیل کی منڈیوں کو کس طرح متاثر کریں گے۔ البتہ اس وقت مارکیٹس روسی رسد میں کمی اور عالمی معیشت کی گراوٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی مانگ میں کمی کے خوف کے درمیان کام کر رہی ہے۔
اس صورتِ حال میں روس جوابی کارروائی کرتے ہوئے یورپ کوبھیجے جانے والی سپلائی کو روک سکتا ہے اور نتیجتاً یورپ کو روسی ڈیزل ایندھن کی درآمدات کے متبادل کی تلاش میں جدوجہد کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک اور اس کے اتحادیوں کا ایک اجلاس اتوار کو ہوا جس میں تیل کی پیداوار کے ہدف پر مشاورت کی گئی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے اوپیک کے چار ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اوپیک ممالک نے تیل کی پیداوار منصوبے کے تحت جاری رکھنے اور اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔