|
ویب ڈیسک — بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں توہینِ مذہب کے الزام میں قتل کیے گئے شخص کے اہلِ خانہ نے مبینہ قاتل پولیس اہلکار کو معاف کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق مقتول کے اہلِ خانہ نے کہا ہے کہ وہ "اللہ کے نام پر" کیس کی پیروی نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ پولیس نے بتایا تھا کہ 52 سالہ عبدالعلی عرف سخی لالا کو گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں ایک تھانے میں پولیس اہلکار سید محمد سرحدی نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم نے خود کو مقتول کا رشتے دار ظاہر کر کے اس تک رسائی حاصل کی تھی۔
بدھ کی شب مقتول کے بیٹے محمد عثمان نے اپنے بھائی اور قبائل کے بزرگوں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم مقدمہ نہیں لڑیں گے۔ ہم نے اللہ کے نام پر پولیس افسر کو معاف کردیا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران ایک بزرگ فیض اللہ نورزئی نے کہا کہ قبیلہ عبدالعلی سے لاتعلقی کرتا ہے۔ "ہم اور ہمارے خاندان کے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پیغمبرِ اسلام اور ان کی ناموس کی خاطر جانیں دی ہیں۔"
واضح رہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کی سزا موت ہے۔ اگرچہ ریاست کی طرف سے اس جرم کے لیے کسی کو پھانسی نہیں دی گئی ہے۔ لیکن درجنوں ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ہجوم نے ٹرائل سے قبل ہی ملزمان کو قتل کیا۔
SEE ALSO: پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے؛ نئی رپورٹ میں اصلاحات پر زور'رائٹرز' کے مطابق اس طرح کے قتل کو اکثر سراہا جاتا ہے اور حالیہ واقعے کے بعد سے عبدالعلی کے مبینہ قاتل کے والد حاجی داد محمد کے گھر لوگ اظہارِ عقیدت کے لیے آ رہے ہیں۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں توہینِ مذہب کے قوانین پر سختی سے اور بار بار عمل کیا جاتا ہے۔
ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ عدالت مقتول کے اہلِ خانہ کی طرف سے معافی کی درخواست پر غور کرے گی اور یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا پولیس اہلکار پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے کارروائی کرنی ہے یا نہیں۔